اللہ انسان کی ذات میں نشانیاں دکھائے گا


۴) اللہ انسان کی ذات میں نشانیاں دکھائے گا:

ترجمہ ۔سورہ فصلت41 ،آیت53: 
"ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اْن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اْن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔"

 استدلال# 4:

  1. اس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشوں کو زمین پر رکھنا جائز ہے تاکہ دین اسلام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے انہیں غیر مسلموں کو دکھاسکیں-
  2. ۔کیونکہ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ہم ایسی نشانیاں انسانی جانوں میں دکھائیں گے جس سے دین اسلام کا سچا ہونا اور کفر کا باطل ہونا واضح طور سے نظر آجائے گا۔یہاں تک کہ کافر بھی بول پڑیں گے کہ واقعی اسلام ہی سچا دین ہے۔
  3. "عالم " صاحب کی نظر میں وہ نشانی یہی تروتازہ لاشیں ہیں۔ کیونکہ دوسری جانب کسی بھی غیر مسلم کی لاش سڑنے گلنے سے محفوظ نہیں رہتی۔ اس آیت کے اندر نشانی دکھانے سے متعلق کوئی اور نشانی بھی ہوسکتی ہے لیکن لاش کی نشانی کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ مفتی اعظم پاکستان محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے سفرنامہ’ جہاں دیدہ‘ میں صفحہ نمبر  54پر خود اسی آیت سے اسلام کی سچائی پراستدلال کیا ہے جہاں پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تروتازہ نعشوں کوزمین سے نکالنے ،مسلم و غیرمسلموں کو دکھانے اور دوسری جگہ منتقل کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تروتازہ لاشیں زمین پر رکھنا جائز ہے۔


تجزیہ استدلال # 4 :


  1. قرآن کی آیت 41:53 میں شہداء کی لاشوں کا تو کیا کسی بھی میت یا لاش کا ذکر نہیں-
  2. کیا رسول کریمﷺ کو علم نہیں تھا کہ شہداء کی لاشیں نشانیاں ہیں؟ کفارآپ سے باربارنشانیوں کا مطلبہ کرتے تھے، ان کو شہداء کی لاشیں دفن کیے بغیر دکھائی جا سکتی تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا ، صحابہ اکرام نے اور چودہ سو سال سے آج تک کسی مسلم نے ایسا کیوں نہ کیا؟
  3. کیونکہ …. اسلام میں میت کےدس حقوق جن میں قبر میں دفن کرنا ، قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں: میت کو غسل دینا، تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا (فرض کفایہ) ،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،
  4. قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔ لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں،تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے-
  5. قرآن کی آیت 41:53 میں "آيَاتِنَا"، نشانیاں مستقبل میں دکھانے کا ذکر ہے-
  6. لفظ "أَنفُسِهِمْ " کا مطلب ہے "ان کی  اپنی ذات"  میں ["أَنفُسِهِمْ " , اسم مجرور و«هم» ضمير متصل في محل جر بالاضافة]. کفار  کی ذات میں ، اس سے پہلی آیت ٥٢ سے واضح ہوتا ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو قرآن کی حقانیت کا انکار کرتے تھے یعنی "کافر"- اب دونوں آیات مل کرپڑہیں توواضح ہوتا ہے کہ مخاطب کفار ہیں:
  7. ترجمہ آیات ٤١:٥٢،٥٣: " آپ(ص) کہہ دیجئے! اے کافرو! تم(غور کر کے)مجھے بتاؤ کہ اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہے پھر تم نے اس کا انکار کیا تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو مخالفت میں بہت دور نکل جائے؟ (52) ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔ کیا تمہارے پروردگار کے لئے یہ امر کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر شاہد ہے۔  (41:52,53)
  8. شہداء تو مسلمان، اہل ایمان ہیں ان کی میتیوں کا اچانک کس خاص وجہ سےالله کی طرف سے ظاہر ہونا اگرچہ بنی نوع انسانی کے لیے نشانی ہے مگر قرآن کی اس آیت( ٤١:٥٢) میں تو کفارکی ذات میں نشانیاں دکھانے کا ذکر کر رہا ہے- کفار میں سے تو صرف فرعون کی لاش کوبطور نشانی محفوظ کرنے کا ذکر ہے .(قرآن، 10:92) ، جوقرآن کے نزول کے تقریبآ تیرہ سو سال بعد ظاہر ہو چکی ہے- کفا ر کی ذات میں اگر کوئی اور مزید نشانیاں اللہ جب چاہے گا کفارپرظاہر کر دے گا- ممکن ہے کہ وہ نشانیاں سب پر ظاہر ہوں یا کفار پر مشترکہ یا انفرادی طور پراس کا علم اللہ کوہی ہے- عام مشاہدہ ہے کہ وہ کفارجو ہدایت کی خواہش رکھتے ہیں الله ان پر رحم فرماتا ہے ان کی عقل سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور وہ کاینات میں اور اپنے آپ میں الله کی نشانیاں دیکھ سکتے ہیں اوراسلام قبول کر لیتے ہیں- ہر ایک کا تجربہ مختلف ہوسکتا ہے- اس قسم کے تجربات اہل ایمان کو بھی ہوسکتے ہیں جس سے ان کا ایمان تازہ اور مزید مستحکم ہو تا ہے- یہ روحانی تجربات مشترکہ یا انفرادی ہوسکتے ہیں جو لوگ بیان کرتے ہیں-جس پر کچھ لوگ یقین کر لیتے ہیں اور کوئی نہیں، ذاتی تجربات دوسروں کو منتقل نہیں ہو سکتے نہ دوسروں کے لیے حجت نہیں-(واللہ اعلم)
  9. مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تروتازہ نعشوں کوزمین سے نکالنے ،مسلم و غیر مسلموں کو دکھانے اور دوسری جگہ منتقل کرنے کا تذکرہ اپنی کتاب میں کیا  ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح وکی پیڈیا پر موجود ہے:
  10. جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام الأنصاري  محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک تھے،انہوں نے چورانوے سال کی عمر پائی اور 68 یا 78ھ میں وفات پائی۔ انہیں بغداد کے قریب مدائن میں دریائے دجلہ کے قریب دفن کیا گیا۔1932 ء میں عراق کے اس وقت کے بادشاہ شاہ فیصل کو خواب میں صحابیِ رسول حذیفہ بن یمانی (معروف بہ حذیفہ یمانی) کی زیارت ہوئی جس میں انہوں نے بادشاہ کو کہا کہ اے بادشاہ میری قبر میں دجلہ کا پانی آ گیا ہے اور جابر بن عبداللہ کی قبر میں دجلہ کا پانی آ رہا ہے چنانچہ ہماری قبر کشائی کر کے ہمیں کسی اور جگہ دفن کر دو۔ اس کے بعد ان دونوں اصحابِ رسول صلعم  کی قبریں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کھولی گئیں جن میں مفتیِ اعظم فلسطین، مصر کے شاہ فاروق اول اور دیگر اہم افراد شامل تھے۔ ان دونوں کے اجسام حیرت انگیز طور پر تازہ تھے، جیسے ابھی دفنائے گئے ہوں۔ ان کی کھلی آنکھوں سے ایسی روشنی خارج ہو رہی تھی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں کو ان کی زیارت بھی کروائی گئی جن کے مطابق ان دونوں کے کفن تک سلامت تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ زندہ ہوں۔ ان دونوں اجسام کو سلمان فارسی کی قبر مبارک کے بالکل قریب سلمان پاک نامی جگہ پر دوبارہ دفنا دیا گیا جو بغداد سے تیس میل کے فاصلے پر ہے۔[ویکیپیڈیا ]
  11. واضح ہوا کہ اصحابہ اکرام کی قبروں کو پانی سے خطرہ لاحق تھا اس لیے ان کی میتوں کو منتقل کیا گیا- یہ واقعه اگر درست ہے، تو یہ ایک نشانی ہے جو الله کی طرف سے ظاہر ہوئی، الله چاہتا تو دریا کا پانی  صحابہ کی قبروں کی طرف نہ جاتا- مگریہ سب الله نے اپنی مشیت سے دکھایا- کسی نے تبلیغ کے لیے صحابہ کی میتوں کو نہ اس واقعہ میں نہ کسی اور جگہ کبھی نکالا- بحالت مجبوری یہ عمل ہوا- قرآن و حدیث اور صحابہ اکرام کے عمل سے یہ ثابت نہیں کہ میتوں کی نمائش کی جائے- میت کے دس حقوق و فرائض جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں ان کو ملحوض خاطر رکھا گیا- ورنہ ان کے میتوں کو شیشہ کے کمرہ یا بکس میں عوام کے دیدار کے کے لیے رکھا جا سکتا تھا- ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ یہ غیر شرعی ہوتا- کبھی کبھار سیلاب یا قدرتی طور پرقبریں کھل جاتی ہیں، میتوں کو احترام سے قبروں میں دفن رکھا جاتا ہے- مسلمان کا عمل شریعت  محمدی کے مطابق ہوت ہے نہ کہ خواہش نفس پر-
  12. ایک واقعہ مشہور ہے کہ 558ھ (مطابق 1142ء) میں دونصرانیوں (عیسائیوں) نےمدینه میں حجرہ مبارکہ کے پاس کسی گھر میں کھدائی کر رکھی تھی تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک قبر سے نکال لیں ـ سلطان نور الدین زنگی  نے خواب میں دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے ، بعد میں دو نصرانیوں پکڑے گئے اور انہیں قتل کر دیا گیا ـ نورالدین رحمہ اللہ نے حجرے کے چاروں طرف سیسے کی عظیم دیوار بنادی- (قصہ ضعیف ہے)
  13. مصنف کی  مرزا قادیانی کی طرح سے خود ساختہ "تفسیر بالرائے" ہے- حدیث ہے کہ :" جو شخص قرآن کریم کے معاملہ  میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے" [ترمذی].  یہ  تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کے بھی خلاف یہ ایسی رائے ہے جو میت کے لیے قرآن وسنت  سے ثابت دس حقوق کے خلاف ہے، لہٰذا مسترد کی جانی چاہیے-ایسی تفسیراسلام کی ١٤٠٠ سالہ تاریخ میں  کسی مستند عالم دین سے منسوب نہیں-اگر کسی کے علم میں ہو تو پیش کرے- دو مشہور تفاسیر سے اقتباسات پیش ہیں:
تفسیر کنز الایمان:
 آسمان و زمین کے اقطار میں سورج ، چاند ، ستارے ، نباتات ، حیوان ، یہ سب اس کی قدرت و حکمت پر دلالت کرنے والے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان آیات سے مراد گزری ہوئی امتوں کی اجڑی ہوئی بستیاں ہیں جن سے انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا حال معلوم ہوتا ہے ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان نشانیوں سے مشرق و مغرب کی وہ فتوحات مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے نیاز مندوں کو عنقریب عطا فرمانے والاہے ۔ ان کی ہستیوں میں لاکھوں لطائف صنعت اور بیشمار عجائبِ حکمت ہیں یا یہ معنی ہیں کہ بدر میں کفار کو مغلوب و مقہور کرکے خود ان کے اپنے احوال میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرادیا یا یہ معنی ہیں کہ مکہ مکرمہ فتح فرما کر ان میں اپنی نشانیاں ظاہر کر دیں گے ۔  یعنی اسلام و قرآن کی سچّائی اور حقانیّت ان پر ظاہر ہوجائے ۔[تفسیر کنزالایمان -مترجم مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب مفسر علامہ نعیم الدین مراد آبادی صاحب]


 تفسیر ضیاء القرآن: 
یہ کتاب انہیں مظاہر فطرت میں غوروفکر کی دعوت دے رہی ہے، لیکن لوگ ان میں غورو فکر کی زحمت برداشت نہیں کرتے۔ کائنات کے ذرہ ذرہ میں جو جہان معنی مستور ہے اس سے یہ غافل ہیں۔ اگر وہ صرف اپنی آنکھ کی ساخت پر غور کریں ، اس میں جو نزاکتیں اور لطافتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں، جسم انسانی کے مختلف اعضا کس طرح بنائے گئے ہیں اور کیا کیا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کی بناوٹ میں ان کاموں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو مناسبتیں رکھی گئی ہیں صرف ہاتھ کی وضع قطع کو دیکھتے ہی یقین آجاتا ہے کہ یہ کسی علیم حکیم ہستی کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ انسان کے اردگرد جو چھوٹی بڑی چیزیں ہیں ان میں غورکرو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس خداوند ذوالجلال کو ماننے کی قرآن دعوت دے رہا ہے، اس کے بغیر اور کوئی خدا نہیں، نہ پہاڑ ، نہ دریا، نہ کواکب، نہ چاند، نہ سورج اور نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا انسان۔ [ تفسیر ضیاء القرآن،  پیر کرم شاہ الازہری]

آیات (41:52) میں قرآن کی حقانیت کا ذکر ہورہا ہے اور پھر (41:53) میں نشانیوں کا- آیات قرآن میں ایک  ہزار سے زائد ایسی آیات موجود ہیں جو سائنس کے مختلف موضوعات،مثلا فلکیات، طبیعیات، جغرافیہ، ارضیات، حیاتیات، نباتیات، حیوانیات، طب، فزیالوجی،رویان شناسی، سمندری علوم اور جنرل سائنس وغیرہ سے متعلق ہیں-ان آیات میں بیان کردہ حقائق حیرت انگیز طور پر جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں- چودہ سوسال قبل جب وحی کا نزول ہورہا تھا انسانوں کا علم ان موضوعات پرعنقا یا بہت محدود تھا, اللہ نے فرمایا:

  1. "ہم انہیں نشانیاں دکھائیں گے آفاق و کائنات میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی تاکہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہ (اللہ) بالکل حق ہے۔" ( 41:53قرآن)
  2. فلکی طبیعیات کے ماہرین ابتدائے کائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا  نا م ’’بگ بینگ‘‘ یعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گزشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہیں۔ بگ بینگ ماڈل میں ایک خیال ہے جس  کے مطابق ابتداء میں شاید یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی، (جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا، جس کا نتیجہ منظم   کہکشائوں  کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشا ئیں  تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنا ت کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔ قرآن پاک درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنا ت کے متعلق بتایا گیا ہے:
  3. ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا(Big Bang) ، اور ہم نے (پہلے) ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘(قرآن 21:30)
  4. "پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا "وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو" دونوں نے کہا "ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح"(قرآن41:11)
  5. ’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘(قرآن 47:51)
  6. "جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا" (قرآن 87:2)
  7. لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے"(قرآن49:13)
  8. بچے کا حمل سے پیدائش تک پیچیدہ عمل ترتیب کےساتھ  حال ہی میں دریافت ہوا ہے جو درست طریقے سے قرآن میں بیان کیا گیا- (قرآن ;23:13-14)
  9. سوال اٹھتا ہے کہ؛ کس طرح 1400 سال قبل ایک ان پڑھ  شخص جس کی پرورش تہذیب اور علم کے مراکز سے بہت دورپسماندہ عرب صحرائی علاقہ میں ہوئی ہو، ایسی درست سائینسی معلومات مہیا کرے جو دورحاضر میں دریافت ہوئی ہوں؟ یہ صرف الله ، واحد خالق کائنات ہے جودرست  سائینسی معلومات مہیا کر سکتا ہے- لہٰذا اگرقرآن میں سائینسی معلومات کا تذکرہ درست  ہے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن  میں موجود غیر طبیعاتی،غیبی اور روحانی معلومات مثلآ ؛ الله کا وجود، فرشتے، ايمان بالآخرة (حیات بعد ازموت،انصاف، فیصلے،جنت، جہنم، روح اور انسانوں کی حتمی تقدیر) بھی درست ہیں- ( https://goo.gl/z0jlXa)
  10. انسان قرآن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر وہ اس پر غور و فکر کریں ( قرآن 38:29)- الله فرماتا ہے: " کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی"( قرآن 4:82)
  11. قرآن کی بہت سی پیشنگوئیاں پوری ہوئیں جن  کی صداقت تاریخی روایات ، تازہ ترین تحقیق اور آثار قدیمہ سے حاصل ثبوتوں سے ثابت ہوئی-
  12. قرآن میں ربط حیرت انگیز ہےجو اس کے کلام الہی ہونے کو ثابت کرتا ہے- قرآن میں موجود بے شمار'اندرونی شواہد'  ثبوت فراہم کرتا ہے، ایک مثال پیش ہے:
  13. قرآن ایک مختصر جملے میں عیسائیوں کو آدم کے متعلق یاد دلاتا ہے:جس کا نہ باپ تھا نہ ماں، اس طرح آدم خدا کا بیٹا نہیں بن جاتا، اس طرح سے آدم اور عیسیٰ میں مماثلت ہے کہ وہ کچھ نہیں سےکچھ،  یعنی الله کے غلام بن گئے-(قرآن ;3:59)-

  1. عیسی اور آدم علیہ السلام میں ایک مساوات قائم کی گئی جس کے لیئے عربی لفظ (مثل) استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب کے 'مماثلت'-  کھا گیا کہ عیسی اور آدم برابر ہیں- قرآن میں انڈیکس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نام 'عیسیٰ' قرآن میں 25 مرتبہ آیا ہے اس طرح سے نام 'آدم' بھی  25 مرتبہ آیا ہے- ڈاکٹرگیری ملر اپنی کتاب (' 'Amazing Quran) میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ اگر اس طریقه کو مزید بڑھائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں 8 جگہ قرآن کی آیات میں ذکر ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں کی طرح ہے، اس مماثلت (مثل) پرمزید تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک کا ذکر 110 مرتبہ ہے تو اس کے مماثلت چیز یا بات کا ذکر بھی 110مرتبہ پایا جاتا ہے- اس طرح سے سکرپٹ میں  'ربط' پیدا کرنا آج کے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے دور میں بھی خاصہ مشکل ہے، مگر 1400سال قبل اس کا تصور بھی محال ہے کہ ایک ان پڑھ امی (ص) 23 سال کے طویل عرصہ میں مختلف جگہوں، مقامات اور مختلف حالات میں چھوٹے اور بڑے ٹکروں میں کتاب لکھوا رہا ہو، جب  اچانک مومنین یا کفارکے سوالات کے جواب میں وحی نازل ہو رہی ہو! یہ حیرت انگیز ہے، کوئی شک نہیں کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے جو خالق واحد، الله کے وجود اور قرآن و اسلام کی حقانیت کا کھلا ثبوت ہے مگر ان کے لیے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور الله کی نشانیوں پر غور و فکر کرتے ہیں-


قرآن کی آیت (41:53 ) سے کسی طور پر بھی  یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ دین اسلام کی سچائی غیر مسلموں کو ثابت کرنے کے لیے  شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشوں کو زمین پر رکھنا جائز ہے- یہ ایک ناجائز عمل ہے-

مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔  پس ثابت  ہوا کہ استدلال باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ یہ قرآن کے پیغام کے مخالف ہے لہٰذا رد کیا جاتا ہے-

مصنف نے قرانی آیات کی  مرزا قادیانی کی طرح سے خود ساختہ "تفسیر بالرائے" کی ہے، جوسراسر گمراہی ہے- حدیث ہے کہ :" جو شخص قرآن کریم کے معاملہ  میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے" [ترمذی].  یہ بدعت ضلالہ، فتنہ و فساد ہے اور   تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کے بھی خلاف یہ ایسی رائے ہے جو میت کے لیے قرآن وسنت  سے ثابت دس حقوق کے خلاف ہے، مسترد کی جانی چاہیے-
………………………………………………….
انڈکس 

  1. فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
  2. معجزات اور قرآن
  3. قرآن اور عقل و استدلال
  4. تفسیر قرآن کے اصول 
  5. میت کے دس حقوق وفرائض
  6. انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
  7. بدعت ضلاله

استدلال باطلہ کا استرداد:
    1. حضرت عزیر علیہ السلام کی سو سالہ موت اور زندگی 
    2. حضرت سلیمان علیہ السلام کی  میت 
    3. قبر کھدائی
    4. انسانی ذات میں معجزات 
    5. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر 
    6. حضرت حمزہ (رضی  الله) کی میت
    7. جوتے اتار کر نماز اور داڑھی
    8. لاشوں پر تبلیغ کا اجتہاد؟

    Comments

    Popular posts from this blog

    تفسیر قرآن کے اصول

    میت کے دس حقوق اور قبروں کا احترام

    قرآن اور عقل و استدلال