تفسیر قرآن کے اصول
قرآن کی تعلیم، تشریح و توضیح
قرآن الله نے انسان کی ہدایت کے لیے رسول الله ﷺ پر نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائیں اور وہ غور و فکر کر سکیں:
فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾
"… اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا- اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے" (قرآن :20:123,124)
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾ أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَن يَخْسِفَ اللَّـهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٤٥﴾
ترجمہ : "پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر(قرآن) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں (قرآن ،16:44 النحل)
"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
"مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔
جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسرالقرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷)
تفسیر قران:
تفسیر یہ لفظ "فسر" سے مشتق ہے جس کے معنی کھولنے کے آتے ہیں؛ چونکہ اس کے ذریعہ قرآن کے معانی ومفاہیم کھول کر بیان کئے جاتے ہیں اس لیے اس کو علم تفسیر سے تعبیر کیا جاتا ہے، قرآن مجید میں اس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آتے ہیں، تفسیر، تاویل بیان تبیان، تبیین، جو تقریباً ہم معنی ہیں-
"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔ (القمر:۱۷)
ترجمہ :ہم نے اِس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قرآن ایک آسان سی کتاب ہے۔ ہر کہ و مہ اس کے اسرار ورموز تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس کا یہ معنی ہو کہ قرآن آسان ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص نصیحت قبول کرنے اور ہدایت پانے کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کرتا ہے ہم اس کے لیے اس کتاب مقدس کو آسان کردیتے ہیں۔ اس کی فہم کو نور فراست سے روشن کردیتے ہیں۔ اس کے ذہن کو جلا اور اس کے فکر کو بالغ نظری بخش دیتے ہیں۔ عروس معنی، الفاظ کا نقاب خود اٹھادیتی ہے لیکن جو ہدایت پذیری کے لیے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اس کو صحیح سمجھ سے محروم کردیا جاتاہے۔ وہ سر پٹخ پٹخ کر رہا جاتا ہے اور قرآن کے الفاظ سے اس سے گفتگو ہی نہیں کرتے۔ اس کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ سمجھانے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا دی جائے۔ قاتل کو تختۂ دار پر لٹا دیاجائے۔ اس وقت وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس نے برا کام کیا تھا۔ اسی کی سزا میں آج اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا جارہا ہے۔ سمجھ تو انسان اس طرح جاتاہے اور خوب سمجھ جاتا ہے لیکن سمجھنے اور سمجھانے کا یہ انداز بڑا سخت اور تلخ ہے اور سمجھنے والے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ سمجھانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ وہ لوگ جو گمراہ ہیں اور نافرمانیوں میں اپنی عمر برباد کر رہے ہیں، ان کے سامنے بڑے موثر پیرائے میں اس فعلِ بد پر مرتب ہونے والے المناک نتائج سے اس گم کردہ راہ کو قبل از وقت آگاہ کردیا جائے اور اس کے سامنے ایسے واقعات کے ڈھیر لگادیے جائیں جن سے اسے یقین ہوجائے کہ اگر وہ اپنے کرتوتوں سے باز نہ آیا تو اس کا بھی یہی حال ہوگا۔ ہر شخص خود فیصلہ کرلے کہ قرآن کا انداز افہام و تفہیم آسان ہے یا عذاب کے شکنجہ میں جکڑے جانے کے بعد کسی کی آنکھ کھل جائے تو یہ آسان ہے۔[ تفسیر ضیاء القرآن، پیر کرم شاہ الازہری]
قرآن کو سمجهنا هے تو تفاسیر کی ضرورت ہے، اپنی طرف سے قرآن کی آیات کے من گھڑت مطلب نکلنا گناہ عظیم ہے:
"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
"مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔
جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسرالقرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷)
قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے،کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے،خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا،قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علماء سے استفادہ کرنا چاہیے-
علمائِ کرام نے مفسر کے لئے جن علوم کو ضروری قرار دیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں:(1)لغت کا علم۔(2)نحو کا علم۔ (3)صرف کا علم۔ (4)اشتقاق کا علم۔ (5،6،7)معانی، بیان اور بدیع کا علم۔(8)قرائتوں کا علم۔ (9)اصولِ دین کا علم۔ (10)اصولِ فقہ کا علم۔ (11)اسبابِ نزول کا علم۔ (12) ناسخ اور منسوخ کا علم۔(13) مُجمَل اور مُبہَم کی تفسیر پر مبنی احادیث کا علم۔
اِن علوم کو سامنے رکھتے ہوئے اُن لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی حاجت ہے جو قرآن مجید کا صرف اردو ترجمہ اورتفاسیر کی اردو کتب پڑھ کر ترجمہ و تفسیر کرنا اور اس کے معانی و مطالب بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک اقدام ہے ۔اسے یو ں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص از خودمیڈیکل کی کتابیں پڑھ کے اپنا کلینک کھول لے اور مریضوں کا علاج کرنا اور ان کے آپریشن کرنا شروع کردے تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟ اسی طرح بلکہ ا س سے کہیں زیادہ نازک قرآنِ مجید کے ترجمہ وتفسیر کا معاملہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا معنی و مفہوم اور اس کی مراد بیان کرنی ہوتی ہے اور یہ کام سیکھے بغیر کرنا اور علم کے بغیر کرنا جہنم میں پہنچا دے گا۔ اس لئے اگرکسی کو تفسیر بیان کرنے کا شوق ہے تواسے چاہیے کہ باقاعدہ علومِ دینیہ سیکھ کر اس کا اہل بنے ۔امام حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : عجمیوں کو اس بات نے ہلاک کر دیاکہ ان میں سے کوئی قرآنِ مجید کی آیت پڑھتا ہے اور وہ اس کے معانی سے جاہل ہو تا ہے تو وہ اپنی اس جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھنا شروع کر دیتا ہے۔ (البحر المحیط، مقدمۃ المؤلف، الترغیب فی تفسیر القرآن،۱/۱۱۸-۱۱۹)
قرآن کریم کی تفسیرکے مروجہ اصول :
(1) تفسیر القرآن بالقرآن:
قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا لفظ سے کی جائے-
(2) تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم:
قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت آنحضرت ﷺ کے کسی قول یا فعل سے کی جائے- قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث والسیرۃ کہلاتا ہے، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں بھیجےجانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال وافعال اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر وتشریح فرمائیں۔ (قرآن ١٦:٤٤). تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کےلیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا ،اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپ ﷺکے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بناکر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کرکےدکھلایا اور ان احکامات خدا وندی کو عملی جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سےایک نمایا خصوصیت ہے ،خواہ وہ حکم ایمان ،توحید، نماز، روزہ ،زکوۃ ،حج، صدقہ وخیرات ،جنگ وجدال، ایثار وقربانی، عزم واستقلال، صبر وشکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے ،ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی وعمدہ عملی تفسیر نمونہ وآئیڈیل کے طور پر آنحضرت ﷺ ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے:
ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ وآیات کی تفسیر وتوضیح ہے جن کی مراد خدا وندی واضح نہیں تو ان کی مراد واجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآب ﷺ نے واضح فرمادیا اور
دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے:
حضرت عائشہ ؓ کے بقول: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا کردار صرف اور صرف قرآن کے ہی سانچے میں ڈھلا ہوا تھا،گویا، وہ چلتا پھرتا قرآن تھے۔‘.. یعنی قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے،خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ کی عبدیت اور اطاعت وفرمانبرداری کی ایسی بے مثال وبے نظیر عملی تفسیر وتصویر امت کے سامنے پیش فرمائی کہ جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول وفعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز وفوقیت رکھتا ہے،دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے؛ بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں-
(3) تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین:
قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ-
(4) تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم الل:
قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ-
(5) تفسیر القرآن بلغۃ العرب:
قرآن مجید کے کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور عربی محاورات کے مطابق کی جائے،تفسیری شرائط کے ساتھ -
(6) تفسیرالقرآن بعقل السلیم:
قرآن مجید کی تشریح وتوضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور منشائے خدا وندی کو ملحوظ رکھ کرعلوم اسلامیہ کی روشنی میں،حالات وواقعات،مواقع ومسائل پر اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار ورموز کو کھولنا اور بیان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم کہلاتا ہے-
عقل سلیم کی اہمیت وضرورت سے کسی کو انکار نہیں ،دنیا کے ہر کام میں اسکی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں- اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اسکی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی۔
تفسیر بالرائے:
"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔ جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ [ ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:2874۔ ابو داؤد،الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم،حدیث نمبر:3167]
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا بشر بن السري، حدثنا سفيان، عن عبد الاعلى، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قال في القرآن بغير علم فليتبوا مقعده من النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بغیر علم کے (بغیر سمجھے بوجھے) قرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔ [امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حدیث نمبر: 2950[
جو شخص قرآن کریم کے معاملہ میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ البتہ تفسیر کے اصولوں اور اسلام کے اجماعی طور پر طے شدہ ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اگر تفسیر میں کسی ایسی رائے کا اظہار کیا جائے جو قرآن وسنت کے خلاف نہ ہو تو وہ حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہے؛ البتہ اس قسم کا اظہار رائے بھی قرآن وسنت کے وسیع وعمیق علم اور اسلامی علوم میں مہارت کے بغیر ممکن نہیں اور علماء نے اس کے لیے بھی کچھ کار آمد اصول مقرر فرمائے ہیں جو اصول فقہ اور اصول تفسیر میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور ان کا ایک نہایت مفید خلاصہ علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "البرہان فی علوم القرآن کی نوع ۴۱ میں بالخصوص اقسام التفسیر کے زیر عنوان (صفحہ:۱۶۴۔۱۷۰)بیان فرمایا ہے-
اصول تفسیر کو نظر انداز کرنا:
اصول تفسیر کو نظر انداز کرنا کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً:
۱۔جو شخص تفسیر قرآن کے بارے میں گفتگو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ محض اپنی رائے کے بل بوتے پر تفسیر شروع کردے۔
۲۔کسی آیت کی کوئی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ وتابعین سے ثابت ہو اور وہ اسے نظر انداز کرکے محض اپنی عقل سے کوئی معنی بیان کرنے لگے
۳۔ جن آیات میں صحابہ کرام وتابعین سے کوئی صر یح تفسیر منقول نہیں ان میں لغت اور زبان وادب کے اصولوں کو پامال کرکے کوئی تشریح بیان کرے۔
۴۔ قرآن وسنت سے براہ راست احکام وقوانین مستنبط کرنے کے لیے اجتہاد کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور پھر بھی اجتہاد شروع کردے-
۵۔ قرآن کریم کے متشابہ آیات (جن کے بارے میں قرآن نے خود کہے دیا ہے کہ ان کی سو فیصد صحیح مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا) ان کی جزم ووثوق کے ساتھ کوئی تفسیر بیان کرے اور اس پر مصر ہو ۔
۶۔قرآن کریم کی ایسی تفسیر بیان کرے جس سے اسلام کے دوسرے اجماعی طور پر مسلم اور طے شدہ عقائد یا احکام مجروح ہوتے ہوں-[میت کو دفن نہ کرنے کی ترغیب دینا ، میت کو دفن کرنے کے قران و سنت کے واضح احکام کے برخلاف ہے ]
۷۔ تفسیر کے معاملہ میں جہاں عقل وفکر کا استعمال جائز ہے وہاں کسی قطعی دلیل کے بغیر اپنی ذاتی رائے کو یقینی طور پر درست اور دوسرے مجتہدین کی آراء کو یقینی طور سے باطل قرار دے۔
٩.باطل آراء اور فاسد قیاس کو معیار کتاب و سنت ٹھہرنا
یہ تمام صورتیں اس تفسیر بالرائے کی ہیں جن سے مذکورہ بالا حدیث میں منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ان تمام صورتوں کو اس مختصر جملے میں سمیٹ دیا گیا ہے : من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من لنار (ترمذی،باب ماجاء یفسر القرآن،حدیث نمبر:۲۸۷۴)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ، حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا غَيْرَ ثَبَتٍ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ >۔
تخريج: د/العلم ۸ (۳۶۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۱، ۳۶۵)، دي/ المقدمۃ ۲۰ (۱۶۱) (حسن)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جسے (بغیرتحقیق کے) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کیا) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا'' ۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَة، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ، أَبْنَائُ سَبَايَا الأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا >۔ [ تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۲)، (مصباح الزجاجۃ: ۲۱) (ضعیف)]
(سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں،اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: ''صدوق ربما أخطأ''، نیز ملاحظہ ہو ''مصباح الزجاجۃ'' بتحقیق د؍عوض الشہری : ۱/ ۱۱۷- ۱۱۸ )
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ پیدا ہوگئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے (قیاس) سے فتوی دینا شروع کیا، تووہ خود بھی گمراہ ہوئے ،اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا'(سنن ابن ماجہ ، کتاب: مقدمہ، 8- بَابُ: اجْتِنَابِ الرَّأْيِ وَالْقِيَاسِ، حدیث نمبر: 56)
یعنی بنی اسرائیل میں ساری برائی رائے کے پھیلنے سے اور وحی سے اعراض کرنے سے ہوئی، اور ہر امت کی بربادی اسی طرح ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی رائے کو وحی الٰہی پر مقدم کرتے ہیں تو برباد ہو جاتے ہیں، اس امت میں بھی جب سے کتاب و سنت سے اعراض پیدا ہوا، اور لوگوں نے باطل آراء اور فاسد قیاس سے فتوی دینا شروع کیا، اور پچھلوں نے ان کی آراء اور قیاس کو وحی الٰہی اور ارشاد رسالت پر ترجیح دی، جب ہی سے ایک صورت انتشار اور پھوٹ کی پیدا ہوئی اور مختلف مذاہب وجود میں آ گئے، اور امت میں اتحاد و اتفاق کم ہوتا گیا، اور ہر ایک نے کتاب و سنت سے اع
راض کر کے کسی ایک کو اپنا امام و پیشوا مقرر کر کے اسی کو معیار کتاب و سنت ٹھہرایا، جب کہ اصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسائل میں مرجع اور مآخذ کتاب و سنت اور سلف صالحین کا فہم و منہج ہے، اور اس کی طرف رجوع ہونے میں امت کے اتحاد کی ضمانت ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ” «تركت فيكم أمرين لن تضلّوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي» ” میں تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب و سنت چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں (عملاً) پکڑے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے “۔
اس بلاگ میں کوشش کی ہے کے محض ذاتی راۓ کی بجاۓ ، مستند علماء کی تفاسیر قرآن و ترجمہ اور احادیث، ریفرنس کے ساتھ پیش کی جائیں تاکہ پرھننے والا خود با آسانی حق اور باطل میں تفریق کر سکے اور فتنہ و تباہی سے بچ سکے-
………………………………………………….
………………………………………………….
انڈکس
- فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
- معجزات اور قرآن
- قرآن اور عقل و استدلال
- تفسیر قرآن کے اصول
- میت کے دس حقوق وفرائض
- انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
- بدعت ضلاله
- نفس کی غلامی
استدلال باطلہ کا استرداد:
Comments
Post a Comment