میت کے دس حقوق اور قبروں کا احترام
اسلام میں میت اور قبروں کا احترام:
انسان کو الله نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ، انسان کی عزت و تکریم موت کے بعد ختم نہیں ہو جاتی- نعشوں اورلاشوں کے بارے میں مختلف مذاہب نے متعدد طریقوں سے احترام کی ہدایات دی ہیں، لیکن ان سب میں احترام کا سب سے بہترین طریقہ وہ ہے جو اسلام نے اختیار کیاہے، جس میں نہ صرف انسانی میت کو بڑے احترام سے زمین میں دفنانے کا حکم دیاگیاہے بلکہ انسانی میت اور قبر کا بھی احترام لازم قرار دیا،حتی کہ قبرپر بیٹھنا بھی ممنوع ہے- البدائع میں فرمایا : لان النبش حرام، اس لئے کہ قبر اکھاڑنا حرام ہے اور یہ اللہ کا حق ہے۔
احادیث میں میت کی عزت و احترام اور تکلیف کی ممانعت:
حدیث پاک ’’لا تسبوا الأموات، فانہم قد افضوا الیٰ ما قدّموا‘‘سے یہ بھی معلوم ہوا ہے ،کہ جناب محمد رسول اﷲ ﷺ نے مردوں کو سب وشتم کرنے، لعن طعن اوربرا سلوک کرنے سے مسلمانوں کو منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ چکے ہیں،(صحیح بخاری،6516،بروایت حضرت عائشہ صدیقہؓ)،یاد رہے، اس حدیث کا تعلق توہین ِمعنوی سے ہے۔
’’نہیٰ رسول اﷲ عن المثلۃ‘‘،(صحاح ستہ)۔گویا آپ ﷺ نے نعش کو مسخ کرنے سے منع فرمایا۔
دشمن کی لاشوں کو بھی باعزت طریقے سے دفنانا لازمی ہے،غزوۂ بدر کی مثال اس باب میں پوری انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
ابوالرجال اورعمرہ بنت عبدالرحمن نے آپ ﷺ سے یہ روایت کی ہے:’’ لعن رسول اﷲﷺ المختفی والمختفیۃ،(یعنی نبّاش القبور)‘‘، کہ حضور ﷺ نے قبروں کواکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ،(التمہیدلما في الموطأ من المعانی والأسانید( موطأامام مالک)،ص:139-138)۔
آپ ﷺ نے فرمایا:’’لأن یجلس أحدکم الیٰ جمرۃ فتحرق ثیابہ،فتخلص الیٰ جلدہ،خیر من أن یجلس علیٰ قبرہ‘‘، (مسلم) ۔ یعنی آپ میں سے کوئی آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے،جس سے اس کے کپڑے جل جائے،پھر اس کی کھال بھی جل جائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ میت کی قبرپر بیٹھ جائے۔
آپ ﷺ نے ادباً و احتراماً قبور پر بیٹھنے سے سختی سے منع کیا ،ارشاد فرمایا:’’لا تجلسوا علیٰ القبور‘‘، قبروں پر نہ بیٹھا کریں،(مسلم)
قبروں پر مساجد یا قبے شبے بنانے میں بھی چونکہ اکھاڑ پچھاڑ اورقبور کو روندنے کا عمل ہوتاہے،اس لئے اسلام نے ان کوبھی ممنوع قراردیاہے۔
پوسٹ مارٹم
قرآن وسنت کی نصوص کے پیشِ نظراسلامی فقہ میں میت کے پوسٹ مارٹم کے متعلق بھی اسی احترام وتکریم کے پیشِ نظر دوآراء پیش کی گئی ہیں : اگر توہین ِمیت کا خطرہ ہویا خدا نہ خواستہ یہی مقصود ہو،تو جائز نہیں، اگرماہرین کی آراء کے مطابق طبی تعلیم کے لئے ہو ،یا وجۂ موت معلوم کرنی ہو ،اہانت کا پہلو نہ ہو، کیونکہ: ’’ ولقد کرّمنا بنی آدم․․‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل70) یعنی بلا ریب ہم نے بنی آدم کو محترم ومکرم ٹہرایاہے-
نیزآپ ﷺ کا ارشاد ہے ،’’کسرعظم المیت ککسرہ حیّا‘‘،(مسلم)۔یعنی میت کی ہڈیوں کی توڑ تاڑ اسی طرح ممنوع ہے،جیسے زندہ انسان کی”- زندہ ومردہ ہر حال میں احترامِ آدمیت کو ملحوظ رکھاجائے، (احکام الغسل والتکفین والجنائز، شیخ خالد المصلح)۔
لاشوں کا مثلہ
جاہلیت کے زمانے میں لاشوں کا مثلہ اور مقتولین پر دل کی بھڑ اس نکالنا ایک عام عمل تھا، تاہم غزوۂ بدر کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے مقتولین کی لاشوں کے احترام کے متعلق اسلامی اخلاق کانمونہ بہترین دکھایا اور مشرکین کے مقتولین کی لاشوں کی تدفین کا حکم دیا-
عتبہ بن عامر الجہنی رضی اﷲ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس مشرکین کے مقتولین میں سے ایک شخص کا سر لے آئے ، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ناراض ہوئے اور انھوں نے اپنے کمانڈ روں کو لکھا : ’’میرے پاس کوئی سرنہ لایاجائے ور نہ یہ حد سے تجاوز ہوگا، یعنی دل کی بھڑاس نکالنے میں ۔میرے لئے اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کافی ہے ۔‘‘
اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ہیں : ’’یہ مثلے کی ایک قسم ہے، کیونکہ سرلاش کا حصہ ہے ،جسے دفن کرنا واجب ہے ، نہ کہ اسے لوگوں کو دکھایا جائے ․․․ پس اﷲ تعالی کا تقوی ہمیں ایسے کام سے دور رکھے گا، جو دشمن کے ساتھ معاملہ بالمثل کے بجائے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے ہو(السیر الکبیر،ص: 277)۔
اسلام میں میت کے حقوق :
میت کو قبر میں دفن کرنے کا حکم بھی الله کا ہے( قرآن،5:31،80:21). اس فرض کو تسلسل سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا اور ١٤٠٠ سال سے امت مسلمہ اس پر عمل کر رہی ہے- ١٤٠٠ سال میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی مومن کی میت کو جان بوجھ کر نہ دفنایا گیا ہو تنقید تو تب ہو جب کوئی حکم عدولی کرے، مسلمان الله اور رسول کے حکم اور تعلیمات کی خلاف درزی کا سوچ بھی نہیں سکتے- میت کے دس حقوق قرآن سے ثابت ہیں جن پر مسلمان عمل کرتے ہیں-میت کو غسل دینا،تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں ،جن کو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی قانون انسانیت میں میت کا احترام
بین الاقوامی قانون انسانیت میں بھی احترامِ اموات کویوں اجاگر کیا گیاہے،’’ ان قانونی قواعد کا مجموعہ جو مسلح تصادم کے متاثرین کے حقوق متعین کرتاہے اور جنگی طاقت کے وسائل کے استعمال اور اس کے اثرات کو صرف فوجی ہدف تک محدود رکھنے کے لئے مقاتلین پر قیود عائد کرتاہے ۔ ‘‘ مسلح تصادم کے متاثرین میں بالعموم بری ، بحری یافضائی معرکوں میں قتل ،زخمی یا ڈوب جانے والے افراد(اوران کی میت ) ،نیز مریض اور قیدی کے علاوہ وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو مقبوضہ علاقوں میں محبوس ہوں یا وہاں وہ قانوناًتحفظ کے مستحق ہوں‘‘ (بین الاقوامی قانون انسانیت،از ڈاکٹر زمالی،ص:158)۔
حسنِ اتفاق سے اسلام اس قانون کی بنیادیں صدیوں پہلے ہی فراہم کرچکا ہے،اہلِ اسلام چونکہ اس کو اپنی مذہبی اقدار کا تسلسل سمجھتے ہیں،اس لئے وہ اس سے مکمل اتفاق کرتے ہیں ۔
1949ء کے جنیوا معاہدات نے مقتولین اور غرق ہونے والے لوگوں کی لاشوں کا احترام لازم کیاہے، نیز لاشوں یا ان کے اعضا ء کی بے حرمتی کو ناجائز ٹھہرایاہے ۔ اسی طرح ان معاہدات کی روسے ریاستوں کی ذمہ داری ہے ،کہ مقتولین کی شناخت اور ان کی تدفین کے متعلق تفصیلات متعین کرنے کے بعد متعلقہ ریاستوں تک اس کی معلومات پہنچائیں ۔
قرآن و سنت سے دلائل سے اس نظریہ کو رد کیا-
………………………………………………….
انڈکس
- فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
- معجزات اور قرآن
- قرآن اور عقل و استدلال
- تفسیر قرآن کے اصول
- میت کے دس حقوق وفرائض
- انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
- بدعت ضلاله
- نفس کی غلامی
استدلال باطلہ کا استرداد:
Comments
Post a Comment