قرآن اور عقل و استدلال
منطقی استدلال
ستدلال (inference) کا لفظ سائنسی و احصائی مضامین میں کسی ایسے طریقۂ کار ، عمل یا منطق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ جب دلائل و اسناد کی بنیادوں پر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہو یا حاصل ہو رہا ہو؛ نتیجہ اخذ کرنے کا یہ کام انسانی بھی ہوسکتا ہے اور آلاتی (جیسے استدلالی محرکیہ (inference engine)) بھی ہوسکتا ہے؛ یعنی اگر محض مشاہداتی یا نظر آنے والے عوامل کی بنیادوں پر نتائج اخذ کرنے کے بجائے منطق و شواہد و دلائل کو بنیاد بنایا جائے تو اسے استدلال کہتے ہیں۔
Informally, two kinds of logical reasoning can be distinguished in addition to formal deduction: induction and abduction. Given a precondition or premise, a conclusion or logical consequence and a rule or material conditional that implies the conclusion given the precondition, one can explain that: [Keep reading ....]
......................................
Quran repeatedly emphases and urge the people to use their intellect to understand its message. Blind faith without reason is faith of ignorants. Islam is a religion without any mythology. Its teachings are simple and intelligible. It is free from superstitions and irrational beliefs. The oneness of God, the prophet-hood of Muhammad (pbuh), and the concept of life after death are the basic articles of its faith. They are based on reason and sound logic. All of the teachings of Islam flow from those basic beliefs and are simple and straightforward. There is no hierarchy of priests, no farfetched abstractions, no complicated rites or rituals. Islam awakens in man the faculty of reason and exhorts him to use his intellect... [Keep Reading .....]
.................................................................
مَنطِق ایک قدیم سائنسی علم ہے جس میں کسی بھی لفظ کی تعریف اور استدلال (يا استنتاج) کے طریقہ کار اور اصولوں پر بحث کی جاتی ہے۔ اس کا بانی ارسطو کو قرار دیا جاتا ہے۔
علمِ استدلال میں منطق کی مدد سے کسی بھی چیز کے بارے میں استدلال کرنا، منطقی استدلال کہلاتا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے logical reasoning بھی کہا جاتا ہے۔ ایک منطقی استدلال تین چیزوں پر مبنی ہوتا ہے:
- ایک شرط اولین (precondition) جس کی مدد سے کسی چیز کے انجام تک پہنچا جا سکے؛
- ایک اصول (rule) جس کو استعمال کر کہ کسی شرط اولین کو انجام تک پہنچایا جا سکے؛ اور،
- ایک انجام (conclusion) جس تک ان دیگر شرائط اور اصولوں کو استعمال کر کہ پہنچا جا سکے۔
ان تین چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے منطقی استدلال کی تین بنیادی اقسام ظاہر ہوتی ہیں:
- استخراجی استدلال (deductive reasoning)
- استقرائی استدلال (inductive reasoning)
- قیاسی استدلال (abductive reasoning)
استخراجی استدلال میں کل سے جزو کی طرف جبکہ استقرائی استدلال میں جزو سے کل کی طرف سفر کیا جاتا ہے-
اہم منطقی مغالطے
منطق ایک قدیم فن ہے جسکا مقصد انسان کو اُن قوانین سے آگاہ کرنا ہے جن کی مدد سے وہ غور و فکر میں غلطی سے محفوظ رہے۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم ان قوانین سے آگاہ نہ ہونے یا آگاہ ہونے کے باوجود غلطی شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ ایسا غلط استدلال ہوتا ہے جو بظاہر صحیح نظر آرہا ہو۔اسی غلط استدلالکو مغالطہ کہتے ہیں۔
مغالطے کا شکار ہماراذہن خود بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہےکہ کوئی اور شخص ہمیں اس میں مبتلاء کر رہا ہو۔ چونکہ کسی بھی استدلال (Argument) کو پیش کرنے کا اصل مقصد کسی نتیجے (یا مقدمے) کو صحیح ثابت کرنا ہی ہوتا ہے اس لیے مغالطے کی وجہ سے ہم غلط نتیجے پر پہنچتے ہیں۔اس کی عام مثال ہمارے سامنے میڈیا، سیاست اور مذہب کا میدان ہے جس میں عوام کو مختلف قسم کے مغالطوں میں مبتلاء کردیا جاتا ہے ۔ایک مقرر اپنی تقریر میں مخالف کے رد اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے ایسے غلط استدلال پیش کرتا جس کا احساس عوام کو بالکل نہیں ہوتا، بلکہ ان کا احساس یہ ہوتا ہے انھوں نے دلائل و نطائر کے طومار باندھ کر مخالف کو چیت کردیا ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ ...
منطقی استدلال
کسی بات کو عقلی طور پر سمجهنے کے لئے انسان کے پاس سب سے بڑی چیز منطق (logic) ہے - منطق کے ذریعے کسی بات کو عقلی طور پر قابل فہم بنایا جاتا ہے - منطق کی دو بڑی قسمیں ہہں - ایک ہے ، انتخابی منطق اور دوسری ہے مجبورانہ منطق ( compulsive logic) - منطق کے یہ دونوں طریقے یکساں طور پر قابل اعتماد ذریعے ہیں - دونوں میں سے جس ذریعے سے بهی بات ثابت هو جائے ، اس کو ثابت شده مانا جائے گا -
انتخابی منطق
امتخابی منطق وه ہے جس میں آدمی کے لئے کئ میں سے ایک کے انتخاب کا موقع هو - اس قسم کے معاملے میں ہمارے پاس ایسے ذریعے هوتے ہیں جن کو منطبق کر کے ہم ایسا کر سکتے ہیں کہ کئ میں سے صرف ایک کا انتخاب کریں اور بقیہ کو چهوڑ دیں -
مثلا سورج کی روشنی کو لیجئے - آنکهہ سے دیکهنے میں سورج کی روشنی صرف ایک رنگ کی دکهائی دیتی ہے ، لیکن پرزم (prism) سے دیکهنے میں سورج کی روشنی سات رنگوں میں بٹ جاتی ہے - اس طرح سورج کی روشنی کے رنگ کے بارے میں ہمارے پاس دو انتخاب هو گئے - آب ہمارے لیے یہ ممکن هو گیا کہ دونوں میں سے جس انتخاب میں منطقی وزن زیاده هو ، ہم اس کو لیں - چنانچہ اس معاملے میں سات رنگوں کے نظریے کو مان لیا گیا - کیونکہ وه زیاده قوی ذریعے سے ثابت هو رہا تها -
مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اس سے مختلف ہے - مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب هوتا ہے - آدمی مجبور هوتا ہے کہ اس ایک انتخاب کو تسلیم کرے - کیونکہ اس میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں هوتا - مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورت حال یہ هوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طور پر ماننا بهی ہے اور ماننے کے لئے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئ دوسرا انتخاب موجود نہیں -
مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے - ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے - وه مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے - حالانکہ اس نے اپنے آپ کو اس خاتون کے بطن سے پیدا هوتے هوئے کبهی نہیں دیکها - اس کے باوجود وه اپنی ماں کو یقین کے ساته مانتا ہے - یہ ماننا مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت هوتا ہے - ایسا وه اس لیے کرتا ہے کہ اس معاملے میں اس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے - اسی لئے وه اپنی ماں کو یقین کے ساته اپنی ماں تسلیم کر لیتا ہے - کیونکہ اس کیس میں اس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں -
خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بهی اسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے - خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابل غور بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں - ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں - کیونکہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی ، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی - چونکہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کر سکتے ، اس لئے ہم خدا کے وجود کی بهی نفی نہیں کر سکتے - (اظہار دین , مولانا وحیدالدین خان)
منطقی طرز استدلال
ایک عالم سے گفتگو ہوئ - میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے : استفت قلبک( مسند احمد، حدیث نمبر : 18006 ) یعنی اپنے دل سے پوچھ لو - اس سے معلوم ہوا کہ دین کے تقاضے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ قرآن اور حدیث کے علاوہ ہے، اور وہ کامن سنس( common sense) ہے - اسلام دین فطرت ہے- اس لیے جو چیز فطری تقاضے کے مطابق ہو، وہ بھی اسلام میں داخل سمجھی جائی گی - مثال کے طور پر ہر شخص اپنے ماں باپ سے محبت کرتا ہے_ وہ اس کو دین کے مطابق سمجھتا ہے_ حالاں کہ قرآن اور حدیث میں کہیں بھی لفظی طور پر یہ لکھا ہوا موجود نہیں ہے کہ............ اپنے ماں باپ سے محبت کرو - انھوں نے میری بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ماں باپ سے محبت کرنے کا حکم قرآن میں موجود ہے، پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی : وقضی ربک الا تعبد الا آیاہ و بالوالدین احسان( الاسرار : 23) - میں نے کہا کہ اس آیت سے آپ کا مدعا ثابت نہیں ہوتا - اس آیت میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے، وہ ماں باپ کی محبت نہیں ہے، بلکہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک ہے، یعنی ماں باپ کے ساتھ تمام انسانی اور اخلاق تقاضے پورے کرنا - یہ ایک غیر منطقی استدلال ہے کہ جس آیت میں اخلاقی سلوک کا ذکر ہو، اس سے قلبی محبت کا حکم نکالا جائے -
منطقی استدلال کیا ہے - منطقی استدلال( logical argument) دراصل درست ریز ننگ( correct reasoning) کا نام ہے - یعنی وہ استدلال جو حقائق پر مبنی ہو - جس میں متعلق( relevant) اور غیر متعلق( irrelevant) کے فرق کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی جائے - ایسا استدلال جو مخاطب کے مسلمہ پر مبنی ہو، نہ کہ کسی یک طرفہ مفروضے پر، جس کی بنیاد قطعی امور پر ہو، نہ کہ ظنی امور پر، جو جذباتی طرز فکر سے بالکل پاک ہو، جس میں کامل موضوعی فکر( objective thinking) پائی جائے - ایسے ہی استدلال کا نام منطقی استدلال ہے - اور منطقی استدلال ہی دراصل درست استدلال( correct reasoning) کا درجہ رکھتا ہے - (مولاناوحیدالدین خان)
قرآن ۶۰ سے زیادہ مقامات پر عقل و فکر، شعور و تدبر اور آگاہی و بصیرت کی بات کرتا ہے اور ایسا دنیا کی کسی اور مذہبی کتاب میں نہیں ملتا۔ کسی بھی مذہبی کتاب میں عقل و برہان پر اتنا زور نہیں دیا گیا جب کہ قرآن اپنے مخالفین کو واضح طور پر برہان لانے کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو دلیل و برہان پیش کرو(ھَاتُوا بُرھَانَکُم اِنکُنتُم صٰدِقِینَ ) قرآن کا اتنا زیادہ عقل و منطق اور غوروفکر پر زور دینے کاایک مطلب یہ سمجھانا بھی ہے کہ عقل استعمال کرنے کا وہاں پر ہی کہا جاتا ہے جب کوئی چیز نظر نہ آتی ہو اور اس کے ظاہر سے باطن کی طرف عقل کے ذریعے سفر کرنے کی ضرورت ہوتی ہو۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ہمیں ظاہر سے اوپر اٹھ کر اور ظاہر پرستی کو چھوڑ کر گہرائیوں میں جا کر حقائق تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اسلام میں غوروفکر یعنی تفکر کو اہم ترین عبادت قرار دیا گیا ہے اور ایک حدیث کے مطابق ایک گھنٹے کا غوروفکر70برس کی عبادت سے افضل ہے۔ اس قسم کی بہت سی روایات کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی عبادت میں فکرومعرفت کا عنصر شامل کریں۔ صرف نماز، روزہ، حج جیسے احکام کو ظاہری طور پر انجام دینا اور ان کی روح سے بے خبر رہنے اور ان کی اصل حکمت پر توجہ نہ کرنے کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں اور ان نتائج کو پاکستان کے مسلمانوں میں عملی طور پر دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں یا بے گناہ اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ آپ سے اور مجھ سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن صرف نمازیں پڑھنے سے ہر انسان ٹھیک نہیں ہوجاتا۔ قرآن میں بیان کردہ تمام احکام اسی وقت موثر ثابت ہوتے ہیں جب اس آگاہی و معرفت کے ساتھ انجام دیا جائے۔ حتی خلوص کی منزل بھی اگرچہ ضروری ہے لیکن اخلاص کے ساتھ اگر فہم و شعور نہ ہو تو ایسی عبادات بھی منفی نتائج کی حامل ہو سکتی ہیں۔
ماہ مبارک رمضان میں لوگوں کی تمام تر توجہ قرآن ختم کرنے میں ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کے ثواب میں کوئی کلام نہیں لیکن اس بات پر توجہ کوئی نہیں دیتا یا اس بات پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ قرآن کو سمجھ بھی لیا جائے۔ اس کے اخلاقی پیغامات کو سمجھنے کے بعد اپنی زندگی میں انھیں عملی طور پرنافذ بھی کیا جائے۔
جب قرآن یہ کہتا ہے:
الَّذِی خَلَقَ المَوتَ وَالحَیٰوةَ لِیَبلُوَکُم اَیُّکُم اَحسَنُ عَمَلًا(سورة الملک:۲)
وہ ذات وہ ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کس کا عمل زیادہ خوبصورت ہے۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن عمل کی کیفیت پر زور دیتا ہے کمیت پر نہیں۔
اس آیت میں واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ تمھارے عمل کی کیفیت اچھی ہونا چاہیے مقدار نہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ کیفیت کا تعلق غوروفکر اور آگاہی و معرفت کے ساتھ عبادت کرنے سے ہے۔
قرآن میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں عقل و استدلال پر زور دیا گیا ہے۔
سورة فرقان میں اللہ تعالیٰ عبادالرحمن کی صفات بیان کرتا ہے یعنی اللہ کے حقیقی بندوں کی صفات کیا ہونا چاہئیں۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِینَ اِذَا ذُکِّرُوا بِاٰیٰتِ رَبِّہِم لَم یَخِرُّوا عَلَیہَا صُمًّا وَّعُمیَانًا(فرقان:۷۳)
اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ اللہ کے بندے وہ ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے قرآن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے یا انھیں آیات الٰہی کی یاد ہانی کروائی جاتی ہے تو وہ ان کے سامنے اندھے اور بہرے بن کر سجدہ ریز نہیں ہوجاتے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ قرآنی آیات کو صرف مقدس سمجھ کر چومنے کا عمل انجام نہ دو بلکہ ان پر غوروفکر کرو ہم نے ان میں بڑے گہرے پیغامات رکھے ہیں جو تمھاری زندگیوں کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سورة زمر کی آیت نمبر۱۸ میں نہایت اہم پیغام دیتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
الَّذِینَ یَستَمِعُونَ القَولَ فَیَتَّبِعُونَ اَحسَنَہ(زمر:۱۸)
یعنی اس آیت میں عقل کی تعریف بھی بیان کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صاحب ایمان وہ ہوتا ہے کہ جو ہر ایک کی بات کو غور سے سنتا ہے اور اس میں سے بہترین کو اپنے لیے انتخاب کرتا ہے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنے اندر پہلے تواتنی صلاحیت پیدا کریں کہ اچھے کو برے سے تمیز دے سکیں۔گویا قرآن صرف علم کی بات نہیں کرتا بلکہ بصیرت و حکمت کی بات بھی کرتا ہے۔ انبیاءکے آنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاُمِّیِّنَ رَسُولًا مِّنہُم یَتلُوا عَلَیہِم اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتٰبَ وَالحِکمَةَ(سورہ جمعہ:۲)
کہ انبیاءکو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ کتاب کی تعلیم دیں اور حکمت بھی سکھائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی ہمارے پاس علم تو ہو سکتا ہے، معلومات کا ذخیرہ تو ہو سکتا ہے، یونیورسٹی کی ڈگریاں تو ہو سکتی ہیں لیکن حق و باطل کی تمیز دینے کی ممکن ہے ہمارے اندر صلاحیت موجود نہ ہو۔ پس قرآن صرف علم کی بات نہیں کرتا بلکہ بصیرت و حکمت کی بات بھی کرتا ہے۔ اور ایک مقام پر قرآن کہتا ہے:
اِن تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجعَل لَّکُم فُرقَانًا (انفال:۲۹)
یعنی اگر تم تقوی اختیار کرو گے تو اللہ تمھیں اس کے نتیجے میں فرقان عطاکرے گا جس کا مطلب ہے صحیح و غلط کو اور حق و باطل کو ایک دوسرے سے تمیز دینے کی صلاحیت۔
سورة زخرف کی آیت نمبر۸۰ میں اہل جہنم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قیامت کے روز کہیں گے کاش ہم نے دنیا میں سن لیا ہوتا یا غور کر لیا ہوتا تو آج ہم جہنم کی آگ میں نہ جلتے۔
گویا قیامت کے دن انسان کو اس بات پر افسوس ہوگا کہ اس نے اپنی عقل کو استعمال کیوں نہیں کیا۔ باوجود اس کے کہ انسان اس دنیا میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اس نے ایسا کرنے میں غفلت سے کام لیا۔ اسی لیے قرآن خود عقل کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے عقل کو استعمال کرنے پر زور دیتا ہے کیونکہ عقل کا ہونا ایک چیز ہے اور عقل کو صحیح سمت میں استعمال کرنا ایک الگ بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؑ نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں انبیاءکے آنے کا ایک فلسفہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ انسانوں کی دفن ہوجانے والی عقلوں کو باہر نکالتے ہیں۔ یعنی انبیاءکے آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو عقل استعمال کرنا سکھائیں جو انسان کو الہٰی رخ کی طرف لے جاسکے اور اس میں تزکیہ و تہذیب کا باعث بن سکے۔
قرآن صرف عقل و منطق اور غوروفکر کرنے کی بات نہیں کرتا بلکہ قرآن شدت کے ساتھ ان رکاوٹوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو انسان کی عقل کومفلوج کر دیتی ہیں۔
قرآن بہت وضاحت کے ساتھ کہتا ہے کہ آباﺅ اجداد کی اندھی تقلید، نفس کی خواہشات اور فطرت کی آوازنہ سننے سے انسان کی عقل شکست سے دوچار ہو جاتی ہے۔ قرآن بہت خوبصورت انداز میں یہ بھی بتاتا ہے کہ کبھی اخلاقی بے راہ روی اور اخلاقی برائیاں انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور اسے عمل سے دور کر دیتی ہیں۔ انسان کے اندر ظلم و ستم کی عادت، تکبر و غرور اور طمع وحسد جیسی اخلاقی برائیاں عقل کی راہ میں نہایت اہم رکاوٹیں ہیں ۔
قرآن عقل کے مقابلے میں ظن و گمان کی مذمت کرتا ہے اور جہاں دلیل و برہان کی حمایت کرتا ہے وہاں ان لوگوں کی شدید مذمت کرتا ے جو ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
ہماری انفرادی،اجتماعی اورخاندانی زندگی میں اس کا بہت عمل دخل ہے، ہم بہت سے مقامات پر ظن و گمان کی بنیاد پر چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کے بہت خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں خاندانوں کے خاندان صرف اس لیے اجڑ جاتے ہیں کہ وہاں علم کے بجائے وہم و گمان کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایک اہم آیت ہے:
وَ لَا تَقفُ مَا لَیسَ لَکَ بِہ عِلم(اسرائ:۳۶)
یعنی اس چیز کی پیروی مت کرو جس کا تمھیں علم نہیں ہے۔
گویا علم و یقین کی منزل پر پہنچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ پیغمبر اسلام کے دور میں جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے لیے صرف یہی دنیا ہے، اسی میں ہم نے مرنا ہے، اسی میں جینا ہے، ان لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ان کے پاس اپنی بات کے ثبوت میں کوئی علمی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ اپنے وہم و گمان کی بنیاد پر ایسی بات کرتے ہیں۔
اِن ہُم اِلَّا یَظُنُّونَ (جاثیہ:۲۴)
ایک اور آیت میں قرآن انبیاءکے آنے کا ایک مقصد یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے پاس روز قیامت حیل و حجت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور کل کو وہ یہ استدلال پیش نہ کرسکیں کہ ہماری تو کوئی رہنمائی کرنے والاموجود ہی نہیں تھا۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ(نساء:۱۶۵)
رسول کہ جو بشارت دینے والے اور متنبہ کرنے والے تھے تاکہ انسانوں کے پاس رسولوں کے آنے کے بعد کوئی حجت باقی نہ رہے۔
اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ عقل و حجت کو کتنی اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کسی شخص کو اس وقت تک سزا نہیں دے گا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہو جائے۔
قرآن عقل و منطق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اکثریت کی پیروی کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ قرآن یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر انسان عقل و فکر کے ساتھ اور حقیقی علمی و منطقی معیارات کو مدنظر رکھے تو ضروری نہیں کہ ہر جگہ اکثریت ہی حق پر ہو اور اکثریت ہی کو صحیح سمجھا جائے بلکہ اصل حق کسی چیز کا عقلی و منطقی تقاضوں پر پورا اترنا ہے۔ اگر کسی کے پاس ٹھوس دلیل ہے اگرچہ وہ اقلیت میں ہی کیوں نہ ہو اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ قرآن کہتا ہے:
اِن تُطِع اَکثَرَ مَن فِی الاَرضِ یُضِلُّوکَ عَن سَبِیلِ اللّٰہِ(انعام:۱۱۶)
اے رسول اگر تم اکثریت کی پیروی کرو گے تو یہ تمھیں اللہ کے راستے سے گمراہ کردے گی۔
قرآن و فلسفی استدلال
یہ بات درست نہیں کہ قرآن کا فلسفی استدلال سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن بعض مقامات پر بڑے گہرے فلسفی دلائل کا سہارا لیتا ہے اور بعض جگہ ایسے موضوعات پیش کرتا ہے جن کی تشریح صرف فلسفہ کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں قرآن کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے فلسفہ کو صرف مادہ اور مادی اشیاءسے مشروط نہیں کیا اور اس فلسفہ کی شدت سے نفی کی ہے جسے صرف مادہ کے ارتقا کے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ قرآن نے ماورائے طبیعت حقائق کو عقلی بنیادوں پر دیکھا ہے اور اپنے پڑھنے والے کو مادی دنیا کے افق سے اوپر لے جا کر اس کو ماورائے طبیعت حقائق سے بھی روشناس کروایا ہے۔
قرآن جب کہتا ہے:
لَو کَانَ فِیھِمَآ اٰلِہَة اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا(انبیاء:۲۲)
اگر کائنات میں دو خدا ہوتے تو یہ کائنات تباہ ہو جاتی، تو قرآن کی یہ آیت انتہائی گہرے فلسفی استدلال پر مبنی ہے۔ عقلی استدلال کے بغیر اس بات کو سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ دو خداﺅں کی صورت میں کائنات میں فساد کیسے لازم آسکتا ہے، اسی لیے کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دونوں خدا آپس میں دوست بھی تو ہو سکتے ہیں اور مل کر ہم آہنگی کے ساتھ بھی تو اس کائنات کو خلق کر سکتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ہم آپس کی ہم آہنگی کے ساتھ کوئی بھی کام خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ بہرحال اس وقت میں اصل فلسفی استدلال کو بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن برہان تمانع کے نام سے معروف خالص فلسفی دلیل کے ذریعے ہی اس آیت کی تشریح کی گئی ہے۔
قرآن ایک مقام پر اثبات وجود باری تعالیٰ کے سلسلے میں برہان فطرت کی طرف اشارہ کرتا ہے، قرآن کہتاہے:
فَاِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجّٰھُم اِلَی البَرِّ اِذَا ھُم یُشرِکُونَ(عنکبوت:۶۵)
جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں (اور ہر طرف طوفان میں گھر جاتے ہیں) تو نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں لیکن جب ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور انھیں خشکی تک پہنچا دیتے ہیں تو یہ پھر شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔
اس آیت میں برہان فطرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اس کو نہیں بچا سکتی اور وہ تمام دنیوی اسباب سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس کی فطرت پکار پکار کر اسے کہتی ہے کہ اس کائنات میں کوئی ایسی طاقت ضرور ہے جو اسے بچا سکتی ہے۔ فطرت کا یہ راستہ بڑی گہری فلسفیانہ بنیادوں پر استوار ہے جس کی تفصیل تو یہاں بیان نہیں کی جاسکتی لیکن اشارةً یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب انسان میں کسی چیز کی حقیقی طلب پیدا ہوتی ہے تو اس کے مطلوب کا خارجی دنیا میں ہونا بھی ضروری ہے۔
مثلاً انسان کو پیاس لگتی ہے جو انسان کی ایک حقیقی طلب ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کائنات کے بنانے والے اور انسان کو خلق کرنے والے نے اس حقیقی طلب کو تو رکھا ہو لیکن اس کا تقاضا پورا نہ کیا ہو اور پانی پیدا نہ کیا ہو۔ اسی طرح بھوک کا مسئلہ بھی ہے۔ پھر جب انسان مشکلات میں گھرتا ہے اور اس کو مدد کے لیے کوئی دنیوی سہارا ن ہیں ملتا تو وہ ایک قدرت مطلقہ کے وجود کا احساس کرتا ہے اور اگر یہ حقیقی طلب ہے تو اس قدرت مطلقہ کا خارج میں ہونا بھی ضروری ہے۔ اس دلیل کے کچھ عقلی مقدمات ہیں جن کے بغیر یہ برہان مکمل نہیں ہو سکتا تاہم یہاں پر صرف اسی نکتے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ قرآن کس طرح گہری فلسفیانہ بنیادوں کو اہمیت دیتا ہے۔
عالم آخرت کے وجود پر قرآن عقلی استدلال پیش کرتا ہے قرآن قیامت کے وجود پربہت سے عقلی دلائل پیش کرتا ہے۔
مثلاً قرآن کہتا ہے کہ انسان اپنے تجربے اوردل کی گہرائیوں سے اس بات کا احساس کرتا ہے کہ اس دنیا میں نہ تو کسی کو اس کی نیکی کا مکمل اجر دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی ظالم کو اس کے ظلم کی مکمل سزا دی جاسکتی ہے۔ پس ایک ایسے جہان کا ہونا ضروری ہے جہاں ظالم کو اس کے ظلم کا اور نیک انسان کو اس کی نیکی کا مکمل اجر مل سکے۔
اسی طرح قرآن نظام عدل کے ذریعے یوم آخرت کے وجود پراستدلال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب اللہ نے انسان کے وجود کے اندر ایک عدالتی نظام رکھا ہے جس کے تحت انسان خود ہی اپنے لیے جج ہوتا ہے خود ہی مجرم ہوتا ہے اور خود ہی اپنے خلاف فیصلہ سناتا ہے جو دراصل قرآن کے نزدیک نفس کے اس مرتبے کی طرف بھی اشارہ ہے جو انسان کو اس کے برے کام پر ملامت کرتا ہے۔ اس کو نفس لوامہ یا ضمیر و وجدان سے تعبیر کیا جاتا ہے تو پھر اس پوری کائنات کے لیے ایک نظام عدل ہونا چاہیے جہاں تمام خلق خدا کا حساب لیا جائے۔ بہرحال اس دلیل کا فلسفہ سے کیا تعلق ہے اور اسے کس طرح عقلی استدلال کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے مزید علمی بحث کی ضرورت ہے جو یہاں پر مقصود نہیں ہے۔
قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم ؑنے جب یہ کہا کہ میں ایسے چاند، سورج، ستارے کی پرستش نہیں کرتا جو غروب ہونے والا ہو تو دراصل حضرت ابراہیم ؑنے برہان حرکت اور برہان محبت کا سہارا لیا۔
گویا حضرت ابراہیم کہنا چاہتے ہیں محبت اس سے کی جاتی ہے جس سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہو اور اس کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہو لیکن جو چیز غروب ہونے والی ہے، جو چیز زوال کا شکار ہونے والی ہے وہ کامل نہیں ہوسکتی۔ وہ ہمیشہ فائدہ نہیں پہنچاتی۔ اسی طرح جہاں حرکت ہوتی ہے وہاں تغیر ہوتا ہے اور تغیر نقص کی علامت ہے۔
عقلی روش کے فوائد
عقل و منطق اور غوروفکر کے ساتھ زندگی گزارنے بہت اہم فوائد ہیں۔ پہلے تو انسان کو دلیل اور استدلال سے محبت ہوجاتی ہے اور وہ شخصیات کی پرستش سے نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ جذباتی وابستگی کی وجہ سے ایسے افراد سے عشق کی حد تک محبت کرنے لگ جاتے ہیں جن کی بات میں عقلی و منطقی لحاظ سے کوئی وزن نہیں ہوتا۔
اسی طرح عقل و منطق کے نتیجے میں انسان حق کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے اور حق کی جستجو اس کی زندگی کا حقیقی مقصد بن جاتی ہے۔ ہم اگر غور کریں تو ہم میں سے اکثریت کو حق تک پہنچنے میں دلچسپی کم اور اپنے گروہوں، گروپوں اور فرقوں کی حمایت کا شوق زیادہ ہوتاہے۔
عقلی و منطقی استدلال اور غوروفکر کرنے سے انسان چیزوں کے حقیقی علل و اسباب کی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے۔ حقیقی علل و اسباب تک رسائی انسان کو بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ جب انسان اصل علت تک پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے غم واندوہ اور ذہنی دباﺅ کو بھی کنٹرول کرلیتا ہے۔
عقل و منطق کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان مخالف عقیدہ کو برداشت کرنے لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ بہت بڑی مشکل ہے کہ ہم کسی بھی ایسی رائے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ہماری رائے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ ملک میں اگر ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی فضا ہے، اگر فرقہ واریت نظر آتی ہے، اگر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم خود کو حقِ مطلق سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے ہی خول میں زندگی گزارنے کی وجہ سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ حق صرف ہمارے پاس ہے لیکن صاحبان عقل و خرد کبھی خود کو حق مطلق نہیں سمجھتے بلکہ وہ حق و حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے جہاں کہیں بھی حق اور حقیقت کی بات نظر آتی ہے اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس چیز کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جسے وہ آج تک حق سمجھتے رہے ہیں اور بعد میں ان پر ثابت ہو گیا کہ ان کی سوچ یا ان کا نظریہ غلط تھا۔ کبھی کبھی ہم اپنی فکر کے عادی ہو جاتے ہیں جس طرح کوئی نشہ کاعادی ہو جاتاہے کوئی چائے کا عادی ہو جاتا ہے، اسی طرح کبھی ہم اپنی سوچ کے عادی ہو جاتے ہیں اور ہم اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
غوروفکر کی وجہ سے انسان اپنی خامیوں کی طرف بھی متوجہ ہوجاتا ہے۔ ہم ہمیشہ دوسروں کی کمزوریاں اور خامیاں تو تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن اپنی خامیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ غوروفکر کرنے سے انسان اپنے عیوب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جب انسان کو اپنی بیماری کا پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے علاج کی بھی فکر کرتا ہے۔
ہماری ذمہ داریاں اجتماعی بھی ہیں
قرآن کی رو سے ہماری صرف انفرادی ذمہ داریاں نہیں ہیں بلکہ من حیث القوم بھی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ قرآن کی رو سے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال انفرادی حیثیت میں دیا جائے گا اور ایک اجتماعی اور قومی حیثیت میں، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ من حیث القوم دنیا میں عقلی،فکری، ثقافتی اوراجتماعی لحاظ سے ہمارا کیا مقام ہے۔ جو لوگ باہر کی دنیا سے واقف ہیں وہ بخوبی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم دنیا کی نظروں میں کیا مقام رکھتے ہیں اور دنیا کو کیا تاثر دے رہے ہیں۔ ایک سول سوسائٹی کے طور پر خود کو دنیا کے سامنے متعارف کرانے کے لیے ہمیں کتنا طویل فاصلہ طے کرنے کی ضرورت ہے۔ (سید ناصر زیدی)
............................................
قرآن اور عقل و استدلال
قرآن ۶۰ سے زیادہ مقامات پر عقل و فکر، شعور و تدبر اور آگاہی و بصیرت کی بات کرتا ہے اور ایسا دنیا کی کسی اور مذہبی کتاب میں نہیں ملتا۔ کسی بھی مذہبی کتاب میں عقل و برہان پر اتنا زور نہیں دیا گیا جب کہ قرآن اپنے مخالفین کو واضح طور پر برہان لانے کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو دلیل و برہان پیش کرو(ھَاتُوا بُرھَانَکُم اِنکُنتُم صٰدِقِینَ ) قرآن کا اتنا زیادہ عقل و منطق اور غوروفکر پر زور دینے کاایک مطلب یہ سمجھانا بھی ہے کہ عقل استعمال کرنے کا وہاں پر ہی کہا جاتا ہے جب کوئی چیز نظر نہ آتی ہو اور اس کے ظاہر سے باطن کی طرف عقل کے ذریعے سفر کرنے کی ضرورت ہوتی ہو۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ہمیں ظاہر سے اوپر اٹھ کر اور ظاہر پرستی کو چھوڑ کر گہرائیوں میں جا کر حقائق تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اسلام میں غوروفکر یعنی تفکر کو اہم ترین عبادت قرار دیا گیا ہے اور ایک حدیث کے مطابق ایک گھنٹے کا غوروفکر70برس کی عبادت سے افضل ہے۔ اس قسم کی بہت سی روایات کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی عبادت میں فکرومعرفت کا عنصر شامل کریں۔ صرف نماز، روزہ، حج جیسے احکام کو ظاہری طور پر انجام دینا اور ان کی روح سے بے خبر رہنے اور ان کی اصل حکمت پر توجہ نہ کرنے کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں اور ان نتائج کو پاکستان کے مسلمانوں میں عملی طور پر دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں یا بے گناہ اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ آپ سے اور مجھ سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن صرف نمازیں پڑھنے سے ہر انسان ٹھیک نہیں ہوجاتا۔ قرآن میں بیان کردہ تمام احکام اسی وقت موثر ثابت ہوتے ہیں جب اس آگاہی و معرفت کے ساتھ انجام دیا جائے۔ حتی خلوص کی منزل بھی اگرچہ ضروری ہے لیکن اخلاص کے ساتھ اگر فہم و شعور نہ ہو تو ایسی عبادات بھی منفی نتائج کی حامل ہو سکتی ہیں۔
ماہ مبارک رمضان میں لوگوں کی تمام تر توجہ قرآن ختم کرنے میں ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کے ثواب میں کوئی کلام نہیں لیکن اس بات پر توجہ کوئی نہیں دیتا یا اس بات پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ قرآن کو سمجھ بھی لیا جائے۔ اس کے اخلاقی پیغامات کو سمجھنے کے بعد اپنی زندگی میں انھیں عملی طور پرنافذ بھی کیا جائے۔
جب قرآن یہ کہتا ہے:
الَّذِی خَلَقَ المَوتَ وَالحَیٰوةَ لِیَبلُوَکُم اَیُّکُم اَحسَنُ عَمَلًا(سورة الملک:۲)
وہ ذات وہ ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کس کا عمل زیادہ خوبصورت ہے۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن عمل کی کیفیت پر زور دیتا ہے کمیت پر نہیں۔
اس آیت میں واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ تمھارے عمل کی کیفیت اچھی ہونا چاہیے مقدار نہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ کیفیت کا تعلق غوروفکر اور آگاہی و معرفت کے ساتھ عبادت کرنے سے ہے۔
قرآن میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں عقل و استدلال پر زور دیا گیا ہے۔
سورة فرقان میں اللہ تعالیٰ عبادالرحمن کی صفات بیان کرتا ہے یعنی اللہ کے حقیقی بندوں کی صفات کیا ہونا چاہئیں۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالَّذِینَ اِذَا ذُکِّرُوا بِاٰیٰتِ رَبِّہِم لَم یَخِرُّوا عَلَیہَا صُمًّا وَّعُمیَانًا(فرقان:۷۳)
اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ اللہ کے بندے وہ ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے قرآن کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے یا انھیں آیات الٰہی کی یاد ہانی کروائی جاتی ہے تو وہ ان کے سامنے اندھے اور بہرے بن کر سجدہ ریز نہیں ہوجاتے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ قرآنی آیات کو صرف مقدس سمجھ کر چومنے کا عمل انجام نہ دو بلکہ ان پر غوروفکر کرو ہم نے ان میں بڑے گہرے پیغامات رکھے ہیں جو تمھاری زندگیوں کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سورة زمر کی آیت نمبر۱۸ میں نہایت اہم پیغام دیتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
الَّذِینَ یَستَمِعُونَ القَولَ فَیَتَّبِعُونَ اَحسَنَہ(زمر:۱۸)
یعنی اس آیت میں عقل کی تعریف بھی بیان کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صاحب ایمان وہ ہوتا ہے کہ جو ہر ایک کی بات کو غور سے سنتا ہے اور اس میں سے بہترین کو اپنے لیے انتخاب کرتا ہے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنے اندر پہلے تواتنی صلاحیت پیدا کریں کہ اچھے کو برے سے تمیز دے سکیں۔گویا قرآن صرف علم کی بات نہیں کرتا بلکہ بصیرت و حکمت کی بات بھی کرتا ہے۔ انبیاءکے آنے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاُمِّیِّنَ رَسُولًا مِّنہُم یَتلُوا عَلَیہِم اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتٰبَ وَالحِکمَةَ(سورہ جمعہ:۲)
کہ انبیاءکو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ کتاب کی تعلیم دیں اور حکمت بھی سکھائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی ہمارے پاس علم تو ہو سکتا ہے، معلومات کا ذخیرہ تو ہو سکتا ہے، یونیورسٹی کی ڈگریاں تو ہو سکتی ہیں لیکن حق و باطل کی تمیز دینے کی ممکن ہے ہمارے اندر صلاحیت موجود نہ ہو۔ پس قرآن صرف علم کی بات نہیں کرتا بلکہ بصیرت و حکمت کی بات بھی کرتا ہے۔ اور ایک مقام پر قرآن کہتا ہے:
اِن تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجعَل لَّکُم فُرقَانًا (انفال:۲۹)
یعنی اگر تم تقوی اختیار کرو گے تو اللہ تمھیں اس کے نتیجے میں فرقان عطاکرے گا جس کا مطلب ہے صحیح و غلط کو اور حق و باطل کو ایک دوسرے سے تمیز دینے کی صلاحیت۔
سورة زخرف کی آیت نمبر۸۰ میں اہل جہنم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قیامت کے روز کہیں گے کاش ہم نے دنیا میں سن لیا ہوتا یا غور کر لیا ہوتا تو آج ہم جہنم کی آگ میں نہ جلتے۔
گویا قیامت کے دن انسان کو اس بات پر افسوس ہوگا کہ اس نے اپنی عقل کو استعمال کیوں نہیں کیا۔ باوجود اس کے کہ انسان اس دنیا میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اس نے ایسا کرنے میں غفلت سے کام لیا۔ اسی لیے قرآن خود عقل کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے عقل کو استعمال کرنے پر زور دیتا ہے کیونکہ عقل کا ہونا ایک چیز ہے اور عقل کو صحیح سمت میں استعمال کرنا ایک الگ بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؑ نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں انبیاءکے آنے کا ایک فلسفہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ انسانوں کی دفن ہوجانے والی عقلوں کو باہر نکالتے ہیں۔ یعنی انبیاءکے آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو عقل استعمال کرنا سکھائیں جو انسان کو الہٰی رخ کی طرف لے جاسکے اور اس میں تزکیہ و تہذیب کا باعث بن سکے۔
قرآن صرف عقل و منطق اور غوروفکر کرنے کی بات نہیں کرتا بلکہ قرآن شدت کے ساتھ ان رکاوٹوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو انسان کی عقل کومفلوج کر دیتی ہیں۔
قرآن بہت وضاحت کے ساتھ کہتا ہے کہ آباﺅ اجداد کی اندھی تقلید، نفس کی خواہشات اور فطرت کی آوازنہ سننے سے انسان کی عقل شکست سے دوچار ہو جاتی ہے۔ قرآن بہت خوبصورت انداز میں یہ بھی بتاتا ہے کہ کبھی اخلاقی بے راہ روی اور اخلاقی برائیاں انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں اور اسے عمل سے دور کر دیتی ہیں۔ انسان کے اندر ظلم و ستم کی عادت، تکبر و غرور اور طمع وحسد جیسی اخلاقی برائیاں عقل کی راہ میں نہایت اہم رکاوٹیں ہیں ۔
قرآن عقل کے مقابلے میں ظن و گمان کی مذمت کرتا ہے اور جہاں دلیل و برہان کی حمایت کرتا ہے وہاں ان لوگوں کی شدید مذمت کرتا ے جو ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
ہماری انفرادی،اجتماعی اورخاندانی زندگی میں اس کا بہت عمل دخل ہے، ہم بہت سے مقامات پر ظن و گمان کی بنیاد پر چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کے بہت خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں خاندانوں کے خاندان صرف اس لیے اجڑ جاتے ہیں کہ وہاں علم کے بجائے وہم و گمان کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایک اہم آیت ہے:
وَ لَا تَقفُ مَا لَیسَ لَکَ بِہ عِلم(اسرائ:۳۶)
یعنی اس چیز کی پیروی مت کرو جس کا تمھیں علم نہیں ہے۔
گویا علم و یقین کی منزل پر پہنچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ پیغمبر اسلام کے دور میں جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے لیے صرف یہی دنیا ہے، اسی میں ہم نے مرنا ہے، اسی میں جینا ہے، ان لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ان کے پاس اپنی بات کے ثبوت میں کوئی علمی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ اپنے وہم و گمان کی بنیاد پر ایسی بات کرتے ہیں۔
اِن ہُم اِلَّا یَظُنُّونَ (جاثیہ:۲۴)
ایک اور آیت میں قرآن انبیاءکے آنے کا ایک مقصد یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے پاس روز قیامت حیل و حجت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور کل کو وہ یہ استدلال پیش نہ کرسکیں کہ ہماری تو کوئی رہنمائی کرنے والاموجود ہی نہیں تھا۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ(نساء:۱۶۵)
رسول کہ جو بشارت دینے والے اور متنبہ کرنے والے تھے تاکہ انسانوں کے پاس رسولوں کے آنے کے بعد کوئی حجت باقی نہ رہے۔
اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ عقل و حجت کو کتنی اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کسی شخص کو اس وقت تک سزا نہیں دے گا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہو جائے۔
قرآن عقل و منطق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اکثریت کی پیروی کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ قرآن یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر انسان عقل و فکر کے ساتھ اور حقیقی علمی و منطقی معیارات کو مدنظر رکھے تو ضروری نہیں کہ ہر جگہ اکثریت ہی حق پر ہو اور اکثریت ہی کو صحیح سمجھا جائے بلکہ اصل حق کسی چیز کا عقلی و منطقی تقاضوں پر پورا اترنا ہے۔ اگر کسی کے پاس ٹھوس دلیل ہے اگرچہ وہ اقلیت میں ہی کیوں نہ ہو اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ قرآن کہتا ہے:
اِن تُطِع اَکثَرَ مَن فِی الاَرضِ یُضِلُّوکَ عَن سَبِیلِ اللّٰہِ(انعام:۱۱۶)
اے رسول اگر تم اکثریت کی پیروی کرو گے تو یہ تمھیں اللہ کے راستے سے گمراہ کردے گی۔
قرآن و فلسفی استدلال
یہ بات درست نہیں کہ قرآن کا فلسفی استدلال سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن بعض مقامات پر بڑے گہرے فلسفی دلائل کا سہارا لیتا ہے اور بعض جگہ ایسے موضوعات پیش کرتا ہے جن کی تشریح صرف فلسفہ کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں قرآن کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے فلسفہ کو صرف مادہ اور مادی اشیاءسے مشروط نہیں کیا اور اس فلسفہ کی شدت سے نفی کی ہے جسے صرف مادہ کے ارتقا کے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ قرآن نے ماورائے طبیعت حقائق کو عقلی بنیادوں پر دیکھا ہے اور اپنے پڑھنے والے کو مادی دنیا کے افق سے اوپر لے جا کر اس کو ماورائے طبیعت حقائق سے بھی روشناس کروایا ہے۔
قرآن جب کہتا ہے:
لَو کَانَ فِیھِمَآ اٰلِہَة اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا(انبیاء:۲۲)
اگر کائنات میں دو خدا ہوتے تو یہ کائنات تباہ ہو جاتی، تو قرآن کی یہ آیت انتہائی گہرے فلسفی استدلال پر مبنی ہے۔ عقلی استدلال کے بغیر اس بات کو سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ دو خداﺅں کی صورت میں کائنات میں فساد کیسے لازم آسکتا ہے، اسی لیے کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دونوں خدا آپس میں دوست بھی تو ہو سکتے ہیں اور مل کر ہم آہنگی کے ساتھ بھی تو اس کائنات کو خلق کر سکتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ہم آپس کی ہم آہنگی کے ساتھ کوئی بھی کام خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ بہرحال اس وقت میں اصل فلسفی استدلال کو بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن برہان تمانع کے نام سے معروف خالص فلسفی دلیل کے ذریعے ہی اس آیت کی تشریح کی گئی ہے۔
قرآن ایک مقام پر اثبات وجود باری تعالیٰ کے سلسلے میں برہان فطرت کی طرف اشارہ کرتا ہے، قرآن کہتاہے:
فَاِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجّٰھُم اِلَی البَرِّ اِذَا ھُم یُشرِکُونَ(عنکبوت:۶۵)
جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں (اور ہر طرف طوفان میں گھر جاتے ہیں) تو نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں لیکن جب ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور انھیں خشکی تک پہنچا دیتے ہیں تو یہ پھر شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔
اس آیت میں برہان فطرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اس کو نہیں بچا سکتی اور وہ تمام دنیوی اسباب سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس کی فطرت پکار پکار کر اسے کہتی ہے کہ اس کائنات میں کوئی ایسی طاقت ضرور ہے جو اسے بچا سکتی ہے۔ فطرت کا یہ راستہ بڑی گہری فلسفیانہ بنیادوں پر استوار ہے جس کی تفصیل تو یہاں بیان نہیں کی جاسکتی لیکن اشارةً یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب انسان میں کسی چیز کی حقیقی طلب پیدا ہوتی ہے تو اس کے مطلوب کا خارجی دنیا میں ہونا بھی ضروری ہے۔
مثلاً انسان کو پیاس لگتی ہے جو انسان کی ایک حقیقی طلب ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کائنات کے بنانے والے اور انسان کو خلق کرنے والے نے اس حقیقی طلب کو تو رکھا ہو لیکن اس کا تقاضا پورا نہ کیا ہو اور پانی پیدا نہ کیا ہو۔ اسی طرح بھوک کا مسئلہ بھی ہے۔ پھر جب انسان مشکلات میں گھرتا ہے اور اس کو مدد کے لیے کوئی دنیوی سہارا ن ہیں ملتا تو وہ ایک قدرت مطلقہ کے وجود کا احساس کرتا ہے اور اگر یہ حقیقی طلب ہے تو اس قدرت مطلقہ کا خارج میں ہونا بھی ضروری ہے۔ اس دلیل کے کچھ عقلی مقدمات ہیں جن کے بغیر یہ برہان مکمل نہیں ہو سکتا تاہم یہاں پر صرف اسی نکتے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ قرآن کس طرح گہری فلسفیانہ بنیادوں کو اہمیت دیتا ہے۔
عالم آخرت کے وجود پر قرآن عقلی استدلال پیش کرتا ہے قرآن قیامت کے وجود پربہت سے عقلی دلائل پیش کرتا ہے۔
مثلاً قرآن کہتا ہے کہ انسان اپنے تجربے اوردل کی گہرائیوں سے اس بات کا احساس کرتا ہے کہ اس دنیا میں نہ تو کسی کو اس کی نیکی کا مکمل اجر دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی ظالم کو اس کے ظلم کی مکمل سزا دی جاسکتی ہے۔ پس ایک ایسے جہان کا ہونا ضروری ہے جہاں ظالم کو اس کے ظلم کا اور نیک انسان کو اس کی نیکی کا مکمل اجر مل سکے۔
اسی طرح قرآن نظام عدل کے ذریعے یوم آخرت کے وجود پراستدلال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب اللہ نے انسان کے وجود کے اندر ایک عدالتی نظام رکھا ہے جس کے تحت انسان خود ہی اپنے لیے جج ہوتا ہے خود ہی مجرم ہوتا ہے اور خود ہی اپنے خلاف فیصلہ سناتا ہے جو دراصل قرآن کے نزدیک نفس کے اس مرتبے کی طرف بھی اشارہ ہے جو انسان کو اس کے برے کام پر ملامت کرتا ہے۔ اس کو نفس لوامہ یا ضمیر و وجدان سے تعبیر کیا جاتا ہے تو پھر اس پوری کائنات کے لیے ایک نظام عدل ہونا چاہیے جہاں تمام خلق خدا کا حساب لیا جائے۔ بہرحال اس دلیل کا فلسفہ سے کیا تعلق ہے اور اسے کس طرح عقلی استدلال کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے مزید علمی بحث کی ضرورت ہے جو یہاں پر مقصود نہیں ہے۔
قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم ؑنے جب یہ کہا کہ میں ایسے چاند، سورج، ستارے کی پرستش نہیں کرتا جو غروب ہونے والا ہو تو دراصل حضرت ابراہیم ؑنے برہان حرکت اور برہان محبت کا سہارا لیا۔
گویا حضرت ابراہیم کہنا چاہتے ہیں محبت اس سے کی جاتی ہے جس سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہو اور اس کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہو لیکن جو چیز غروب ہونے والی ہے، جو چیز زوال کا شکار ہونے والی ہے وہ کامل نہیں ہوسکتی۔ وہ ہمیشہ فائدہ نہیں پہنچاتی۔ اسی طرح جہاں حرکت ہوتی ہے وہاں تغیر ہوتا ہے اور تغیر نقص کی علامت ہے۔
عقلی روش کے فوائد
عقل و منطق اور غوروفکر کے ساتھ زندگی گزارنے بہت اہم فوائد ہیں۔ پہلے تو انسان کو دلیل اور استدلال سے محبت ہوجاتی ہے اور وہ شخصیات کی پرستش سے نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ جذباتی وابستگی کی وجہ سے ایسے افراد سے عشق کی حد تک محبت کرنے لگ جاتے ہیں جن کی بات میں عقلی و منطقی لحاظ سے کوئی وزن نہیں ہوتا۔
اسی طرح عقل و منطق کے نتیجے میں انسان حق کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے اور حق کی جستجو اس کی زندگی کا حقیقی مقصد بن جاتی ہے۔ ہم اگر غور کریں تو ہم میں سے اکثریت کو حق تک پہنچنے میں دلچسپی کم اور اپنے گروہوں، گروپوں اور فرقوں کی حمایت کا شوق زیادہ ہوتاہے۔
عقلی و منطقی استدلال اور غوروفکر کرنے سے انسان چیزوں کے حقیقی علل و اسباب کی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے۔ حقیقی علل و اسباب تک رسائی انسان کو بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ جب انسان اصل علت تک پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے غم واندوہ اور ذہنی دباﺅ کو بھی کنٹرول کرلیتا ہے۔
عقل و منطق کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان مخالف عقیدہ کو برداشت کرنے لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ بہت بڑی مشکل ہے کہ ہم کسی بھی ایسی رائے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ہماری رائے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ ملک میں اگر ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی فضا ہے، اگر فرقہ واریت نظر آتی ہے، اگر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم خود کو حقِ مطلق سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے ہی خول میں زندگی گزارنے کی وجہ سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ حق صرف ہمارے پاس ہے لیکن صاحبان عقل و خرد کبھی خود کو حق مطلق نہیں سمجھتے بلکہ وہ حق و حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے جہاں کہیں بھی حق اور حقیقت کی بات نظر آتی ہے اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس چیز کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جسے وہ آج تک حق سمجھتے رہے ہیں اور بعد میں ان پر ثابت ہو گیا کہ ان کی سوچ یا ان کا نظریہ غلط تھا۔ کبھی کبھی ہم اپنی فکر کے عادی ہو جاتے ہیں جس طرح کوئی نشہ کاعادی ہو جاتاہے کوئی چائے کا عادی ہو جاتا ہے، اسی طرح کبھی ہم اپنی سوچ کے عادی ہو جاتے ہیں اور ہم اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
غوروفکر کی وجہ سے انسان اپنی خامیوں کی طرف بھی متوجہ ہوجاتا ہے۔ ہم ہمیشہ دوسروں کی کمزوریاں اور خامیاں تو تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن اپنی خامیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ غوروفکر کرنے سے انسان اپنے عیوب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جب انسان کو اپنی بیماری کا پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے علاج کی بھی فکر کرتا ہے۔
ہماری ذمہ داریاں اجتماعی بھی ہیں
قرآن کی رو سے ہماری صرف انفرادی ذمہ داریاں نہیں ہیں بلکہ من حیث القوم بھی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ قرآن کی رو سے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال انفرادی حیثیت میں دیا جائے گا اور ایک اجتماعی اور قومی حیثیت میں، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ من حیث القوم دنیا میں عقلی،فکری، ثقافتی اوراجتماعی لحاظ سے ہمارا کیا مقام ہے۔ جو لوگ باہر کی دنیا سے واقف ہیں وہ بخوبی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم دنیا کی نظروں میں کیا مقام رکھتے ہیں اور دنیا کو کیا تاثر دے رہے ہیں۔ ایک سول سوسائٹی کے طور پر خود کو دنیا کے سامنے متعارف کرانے کے لیے ہمیں کتنا طویل فاصلہ طے کرنے کی ضرورت ہے۔ (سید ناصر زیدی)
More:
http://www.javedahmadghamidi.com/books/view/mantaq
………………………………………………….
انڈکس
- فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
- معجزات اور قرآن
- قرآن اور عقل و استدلال
- تفسیر قرآن کے اصول
- میت کے دس حقوق وفرائض
- انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
- بدعت ضلاله
استدلال باطلہ کا استرداد:
Comments
Post a Comment