لاشوں پر اجتہاد


۸) اجتہاد
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق مردوں کو دفنانے کی تعلیم ہے۔اس کی چند حکمتیں ہیں ۔
اگر دفن نہ کیا جائے تو:


۱) ورثا ء کا رونا دھونا تسلسل کے ساتھ برقرار رہے گا جو کہ نقصان دہ ہے۔
۲) دفن نہ کرنے سے جو لاشیں سڑگل جانے والی ہیں ان سے معاشرے میں بدبو پیدا ہوگی اور لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔
۳) دفن نہ کرنے کی وجہ سے جن لوگوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے ان کے لیے مسائل پیدا ہوتے کہ وہ ان لاشوں کو کہاں رکھتے۔
۴) اب تک زمین لاشوں سے تنگ پڑجاتی ۔
۵) گناہ گاروں کی پردہ داری بھی مقصود ہے کہ لاشوں کے سڑنے گلنے سے عوام میں ان کی خفت ہوتی۔
۶) ہم نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ بعض جانور سے بدتر انسان لاشوں کو میڈیکل تجربات کے لیے بیچتے ہیں ،ان سے زنا کرتے ہیں،ان کا گوشت کھالیتے ہیں،ان کا کفن چرالیتے ہیں، ان کے اعضا ء کو جادو وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
میرے  (مولانا /عالم کے ) خیال میں مذکورہ حکمتوں کی وجہ سے عمومی طور پردفن کرنے کا حکم ہے اورحضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے۔

لیکن شہدائے اسلام کی چند لاشوں کو زمین پر رکھنے سے ہمارے مذکورہ نہایت ہی اہم مقاصد کے لیے بالکل جائز ہوگا۔اور بیان کرد ہ حکمتوں کی مخالفت بھی نہیں ہوگی۔اگر اہل بصیرت مسلمان غور کریں تو ہماری بیان کردہ تمام باتوں سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ شہدائے اسلام کی تازہ لاشوں کو زمین پر رکھنا تاکہ غیرمسلم انہیں میڈیاکے ذریعے آنکھوں سے دیکھ کر دین اسلام کی سچائی کے بارے میں مطمئن ہوسکیں اور اسلام میں داخل ہوںبالکل درست ہے۔

 جب دین اسلام غالب ہوجائے اور میرا خیال ہے کہ چند لاشوں کو زمین پر ایک د و سال کے لیے رکھنے سے ان شاء اللہ دین اسلام غالب ہوجائے گاجو کہ ہمارا مقصد ہے ۔پھر اس کے بعد ان لاشوں کو دفن کردیا جائے تواس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔اگر ہمارا مقصد ایک ماہ میں ہی پورا ہوجاتا ہے تو ہم انہیں تب ہی دفن کردیں گے۔

 لہذا اب میں آپ مفتیان کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مذکورہ باتوں کی روشنی میںہمارا ایسا کرنا آپ کی نگاہ میں کیسا ہے اور دین اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کو حاظر ناظر جانتے ہوئے سو فیصد اخلاص اور پورے غور وفکر کے ساتھ ہمارے اس سوال کا جواب دیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔



تجزیہ استدلال #8

اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن-و-سنّت میں نہ ہو- میت کی تدفین اور دس حقوق و فرائض قرآن و سنت سے ثابت ہیں اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں-

اسلام میں میت کے حقوق :


 میت کو قبر میں دفن کرنے کا حکم بھی الله کا ہے( قرآن،5:31،80:21). اس فرض کو تسلسل سے رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا اور ١٤٠٠ سال سے امت مسلمہ اس پر عمل کر رہی ہے- ١٤٠٠ سال میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی مومن کی میت کو جان بوجھ کر نہ دفنایا گیا ہو تنقید تو تب ہو جب کوئی حکم عدولی کرے، مسلمان الله اور رسول کے حکم اور تعلیمات کی خلاف درزی کا سوچ بھی نہیں سکتے-  میت کے دس حقوق قرآن  سے ثابت ہیں جن پر مسلمان عمل کرتے ہیں-میت کو غسل دینا،تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا،قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں ،جن کو یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے۔
اجتہاد کیا ہے ؟
اجتہاد شریعت اسلامیہ کی ایک اہم اصطلاح ہے ۔مخصوص شرائط کے ساتھ فقہی منابع میں سے عملی احکام اور وظائف کا استنباط کرنا اجتہاد کہلاتا ہے . انسان میں ایسی صلاحیت کا پایا جانا کہ جس کے ذریعے وہ اسلامی احکام کو اس کے مخصوص منابع اور مآخذوں سے اخذ کر سکے اس صلاحیت اور قابلیت کو اجتہاد کہا جا تا ہے۔جس شخص میں یہ صلاحیت پائی جائے اسے مجتہد کہا جاتا ہے. اکثر علماء کے نزدیک فقہی منابع،کتاب، سنت، اجماع اور عقل ہے۔

مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو ، فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ
[ سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان]
ترجمہ: جب حضور اکرم نےمعاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں-
[ سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان]

اجتہاد کب اور کیوں کیا جاتا ہے ؟
1. قرآن میں سب مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں (مگر اصول موجود ہیں)- 2. سنّت میں بھی "نئے پیش آمدہ" مسائل کا "واضح و مفصل" حل نہیں، مگراصول موجود ہیں ، سو فقہ دین (قرآن 9:122) کا انکار کرنے والے صحیح نہیں. 3. اجتہاد تب کیا جائیگا جب اس نۓ مسلے/واقعہ کا واضح جواب قرآن و سنّت میں نہ ہو- مگر اجتہاد میں قرآن و سنت سے بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے، وہ ان کے مخالف نہ ہوں-
میت کی تدفین اور دس حقوق و فرائض قرآن و سنت سے ثابت ہیں اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں- 4. اجتہاد کا کرنے کا "اہل" ہر عامی(عام شخص) نہیں، بلکہ کوئی علمی-شخصیت کسی کے دینی علمی سمجھ میں گہرائی اور مہارت پرکھ لینے کے بعد تائیدی اجازت دے. چنانچہ اس سے مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہو حکم دینے کے لائق ہو اور جاہل کا حکم دینا درست نہیں، اگر وہ حکم کرے گا تو گناہگار ہوگا 5. شرعی فیصلہ/فتویٰ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن سے فیصلہ کیا جائیگا، نہ کے سنّت یا قیاس سے. قرآن کے بعد سنّت سے پھر قیاس سے. 6. جب یمن کے عربی عوام کو بلا واسطہ معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے بذات خود قرآن و حدیث پڑھ سمجھکر عمل کرنے اور ہر ایک کا معلم (تعلیم دینے والا) اور قاضی (فیصلہ کرنے والا) بننے کی بجاۓ وہاں کے لیے ایک رہبر (امام) معلم و قاضی بناکر بھیجنے کی احتیاج (ضرورت) تھی ، تو کسی عالم (جو علوم_انبیاء کے وارث ہوتے ہیں) کی امامت (راہبری) کی احتیاج تو مزید بڑھ جاتی ہے ان عجمی عوام کیلئے جو عربی قرآن کے صحیح ترجمہ و تفسیر اور سنّت_قائمہ (غیر منسوخہ) معلوم کرنے کو عربی احادیث میں ثابت مختلف احکام و سنّتوں میں ناسخ و منسوخ آیات اور افضل و غیر افضل احکام جاننے کے زیادہ محتاج ہیں، اور بعد کے جھوٹے لوگوں کی ملاوتوں سے صحیح و ثابت اور ضعیف و بناوٹی روایات کے پرکھنے کے اصول التفسیر القرآن اور اصول الحدیث ، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں بلکہ ائمہ_مسلمین کی دینی فقہ (القرآن : 9:122) کے اجتہادی اصول الفقہ ہیں، یہ اسی اجتہاد کے اصول_شریعت سے ماخوذ ہیں.
………………………………………………….
انڈکس 

  1. فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
  2. معجزات اور قرآن
  3. قرآن اور عقل و استدلال
  4. تفسیر قرآن کے اصول 
  5. میت کے دس حقوق وفرائض
  6. انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
  7. بدعت ضلاله

استدلال باطلہ کا استرداد:
    1. حضرت عزیر علیہ السلام کی سو سالہ موت اور زندگی 
    2. حضرت سلیمان علیہ السلام کی  میت 
    3. قبر کھدائی
    4. انسانی ذات میں معجزات 
    5. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر 
    6. حضرت حمزہ (رضی  الله) کی میت
    7. جوتے اتار کر نماز اور داڑھی
    8. لاشوں پر تبلیغ کا اجتہاد؟
    References/Links:
    مشہور ٧ تفاسیر قرآن http://myonlinequran.com
    Discussion at Messenger:

    خاتم النبیین  http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#1

    Opening The Graves of two Companions of Prophet (SAW) https://www.youtube.com/watch?v=g6RG83qeKs0

    Comments

    Popular posts from this blog

    تفسیر قرآن کے اصول

    میت کے دس حقوق اور قبروں کا احترام

    قرآن اور عقل و استدلال