حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش مبارکہ

۲) حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش مبارکہ

ترجمہ ۔سورہ سبا34،آیت14: پھر جب ہم نے سلیمان (علیہ السلام) پر موت کا حکم صادر فرما دیا تو اْن (جنّات) کو ان کی موت پر کسی نے آگاہی نہ کی سوائے زمین کی دیمک کے جو اْن کے عصا کو کھاتی رہی، پھر جب آپ کا جسم زمین پر آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے۔

 استدلال #2:

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش زمین پر کچھ عرصہ کے لیے موجود رہی جو کہ سڑنے گلنے سے محفوظ رہی۔ لیکن قرآن کریم کی کسی بھی آیت میں یا حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا کہ اس لاش کے زمین پر رہنے پر تنقید کی گئی یا منع کیا گیا۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی تروتازہ لاش کا زمین پر کسی خاص مقصد کے لیے رکھنا جائز ہے۔ 

لہذا ہمارے لیے بھی زمین پر چند شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشوں کو رکھنا جائز ہے تاکہ غیر مسلموں کو دکھاکر دین اسلام کی سچائی کے بارے میں مطمئن کرسکیں۔

تجزیہ استدلال #2 :

مذکورہ آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ : "ان (جنّات) کو ان کی موت پر کسی نے آگاہی نہ کی سوائے زمین کی دیمک کے.."..… یعنی کسی کو معلوم نہ تھا کہ حضرت سلیمان  علیہ السلام وفات پا چکے ہیں- یعنی یہ حجت یا دلیل نہیں بنتی نہ ہی ان کی میت بطور نمائش لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دلیل بنتی ہے- کسی کو معلوم نہیں تھا بشمول جنات کہ آپ کی وفات کب ہوئی- یہ تو اللہ تعالی قرآن میں ہمیں بتلا رہے ہیں- جب دیمک نے ان کے عصا کو کھا لیا: "… پھر جب آپ کا جسم زمین پر  آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیزعذاب میں نہ پڑے رہتے۔"... اصل بات جو ہمارے اور جنات کے علم  میں لائی جا رہی ہے کہ جنات کو غیب کا علم نہیں - اپنی طرف سے تبصرہ کی بجایے  مشہور علماء کی تفاسسر کو دیکھا کہ شاید کہیں سے میتوں کی نمائش کی سند مل جایئے مگر نہیں، کچھ تفاسیر سے اقتباسات پیش ہیں تاکہ آپ خود حقیقت سے آگاہی حاصل کریں اور گمراہی سے بچیں- اگر کسی مشہور عالم  تفسیر میں موجد فتنہ کے موقف کے حق میں کوئی دلیل ملے تو ضرورکمنٹس سے آگاہ کریں (فیس بک پوسٹ آخر میں امبیڈ embeded ہے).

 تفسیرتذکیرالقرآن:

 حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا وقت آیا تو وہ اپنا عصا ٹیکے ہوئے تھے اور جنوں سے کوئی تعمیری کام کرا رہے تھے۔ موت کے فرشتے نے آپ کی روح قبض کرلی۔ مگر آپ کا بے جان جسم عصا کے سہارے بدستور قائم رہا۔ جنات یہ سمجھ کر اپنے کام میں لگے رہے کہ آپ ان کے قریب موجود ہیں اور نگرانی کررہے ہیں۔ اس کے بعد عصا میں دیمک لگ گئی۔ ایک عرصہ کے بعد دیمک نے عصا کو کھوکھلا کردیا تو آپ کا جسم زمین پر گر پڑا۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ آپ وفات پا چکے ہیں۔ یہ واقعہ اس صورت میں غالباً اس لیے پیش آیا تاکہ لوگوں کے اس غلط عقیدہ کی عملی تردید ہوجائے کہ جنات غیب کا علم رکھتے ہیں۔ [تفسیرتذکیرالقرآن - مولانا وحید الدین خان]

تفسیر کنزالایمان:

 حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّات پر ظاہر نہ ہو "تا کہ انسانوں کو معلوم ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے" پھر آپ محراب میں داخل ہوئے اور حسب عادت نماز کے لئے اپنے عصا پر تکیہ لگا کر کھڑے ہو گئے ، جِنّات حسب دستور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت زندہ ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا عرصہ دراز تک اسی حال پر رہنا ان کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیں ہوا کیونکہ وہ بارہا دیکھتے تھے کہ آپ ایک ماہ ، دو ٢ دو ٢ ماہ اور اس سے زیادہ عرصہ تک عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور آپ کی نماز بہت دراز ہوتی ہے حتّٰی کہ آپ کی وفات کے پورے ایک سال بعد تک جِنّات آپ کی وفات پر مطلع نہ ہوئے اور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے یہاں تک کہ بحکم الٰہی دیمک نے آپ کا عصا کھا لیا اور آپ کا جسم مبارک جو لاٹھی کے سہارے سے قائم تھا زمین پر آیا ، اس وقت جِنّات کو آپ کی وفات کا علم ہوا ۔[تفسیر کنزالایمان -مترجم مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب مفسر علامہ نعیم الدین مراد آبادی صاحب]

 تفسیر ضیاء القرآن: 

جنات غیب دانی کا دعویٰ کیا کرتے تھے اور اس وجہ سے وہ انسانوں پر اپنا رعب بٹھاتے اور انہیں طرح طرح کی ایسی باتیں بتاتے جن کا تعلق امور غیبیہ سے ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت نے ان کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ا س وقت موت سے ہمکنار کیا جب وہ عصا پر ٹیک لگائے مصروف عبادت تھے آپ کی روح پرواز کر گئی۔ لیکن آپ کا جسم مبارک عصا کے سہارے جوں کا توں کھڑا رہا۔ جنات جو آپ کے حکم سے بڑے کٹھن اور مشقت طلب کاموں میں جتے ہوئے تھے اور آپ کے خوف سے سستی نہ کر سکتے تھے، وہ آپ کو کھڑا دیکھتے تو سمجھتے کہ آپ زندہ وسلامت ہیں، ذرا غفلت برتی تو کھال ادھیڑ لیں گے۔ اسی طرح پورا سال گزر گیا۔ حکم الٰہی سے دیمک نے عصا کو چاٹنا شروع کر دیا۔ نیچے سے اوپر تک اسے کھوکھلا کرنے میں ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔ جب وہ بالکل کھوکھلا ہوگیا اور آپ کا بوجھ نہ سہار سکا تو ٹوٹ گیا اور آپ نیچے زمین پر آرہے۔ تب جنات کو پتہ چلا کہ جس کے خوف سے انہوں نے اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا رکھا وہ تو عرصہ سے وفات پاچکا ہے تو اب ان کے دعویٰ کی حقیقت فاش ہوگئی۔ نیز وہ لوگ جو ان جنات کے غیب دانی کے دعویٰ کو سچا سمجھ رہے تھے انہیں بھی پتہ چل گیا کہ یہ اپنے دعویٰ میں سراسر جھوٹے ہیں۔ یعنی تمام جنوں پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان کے سردار جو غیب دانی کی لافیں مارا کرتے تھے وہ بالکل جھوٹے تھے اگر انہیں غیب کا علم ہوتا تو وہ سال بھر اپنی جان کو اس مصیبت میں نہ ڈالے رکھتے یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ جنات کو غیب کا کوئی علم نہیں۔ جنات کے سر غرور کو خاک میں ملانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے شان نبوت کا مشاہدہ بھی کرا دیا۔ عام انسان اگر عصا پر ٹیک لگا کر کھڑا ہو اور وہ اونگھ جائے تو اس کا توازن برقرار نہیں رہتا۔ اور فورا زمین پر گر پڑتا ہے۔ پھر موت کے بعد چہرے کی رنگت بدل جاتی ہے جسم میں طرح طرح کے تغیرات رونما ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن یہاں آپ سال بھر ٹیک لگائے کھڑے رہے، چہرہ اسی طرح پھول کی طرح شگفتہ رہا۔ بدل بالکل تروتازہ رہا۔ تعفن اور بوسیدگی تو کجا لباس بھی ویسے ہی پاک صاف رہا۔ نہ موسم گرما کی حدت، لو اور حبس نے جسد اطہر کو متاثر کیا اور نہ موسم سرما کا کوئی اثر ظاہر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے بےبصیرت لوگوں کو ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ کرا دیا کہ نبی کی ظاہری زندگی کا جاہ وجلال تو تم دیکھتے رہے۔ اب اس کے انتقال کے بعد بھی اس کی شان رفیع کو دیکھو۔ [ تفسیر ضیاء القرآن- پیر کرم شاہ الازہری]

تفسیر عشمانی: 

حضرت سلیمانؑ جنوں کے ہاتھ سے مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے جب معلوم کیا کہ میری موت آ پہنچی جنوں کو نقشہ بتا کر آپ ایک شیشہ کے مکان میں دربند کر کے عبادت الہٰی میں مشغول ہو گئے جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ مہینوں خلوت میں رہ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اسی حالت میں فرشتہ نے روح قبض کر لی اور آپ کی نعش مبارک لکڑی کے کے سہارے کھڑی رہی۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ وفات کے بعد مدت تک جن بدستور تعمیر کرتے رہے۔ جب تعمیر پوری ہو گئ جس عصا پر ٹیک لگا رہے تھے گھن کھانے سے گرا۔ تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جنات کو خود ا پنی غیب دانی کی حقیقت کھل گئ اور ان کے معتقد انسانوں کو بھی پتہ لگ گیا کہ اگر انہیں غیب کی خبر ہوتی تو کیا اس ذلت آمیز تکلیف میں پڑے رہتے۔ حضرت سلیمانؑ کی وفات کو محسوس کرتے ہی کام چھوڑ دیتے۔ اسی سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ شیاطین وغیرہ کی تسخیر کچھ حضرت سلیمانؑ کا کسبی کمال نہ تھا محض فضل ایزدی تھا۔ جو اللہ چاہے تو موت کے بعد ایک لاش کے حق میں بھی قائم رکھ سکتا ہے۔ نیز سلیمانؑ پر زندگی میں جو انعامات ہوئے تھے یہ اس کی تکمیل ہوئی کہ موت کے بعد بھی ایک ضروری حد تک انہیں جاری رکھا گیا۔ اور بتلا دیا کہ پیغمبروں کے اٹھائے ہوئے کاموں کو اللہ تعالیٰ کس تدبیر سے پورا کرتا ہے۔ [تفسیر عشمانی: مولانا شبیر احمد عشمانی]

واضح رہے کہ شان نبوت کا نظارہ الله تعالی نے کرایا- کبھی کبھار شہداء کی قبریں قدرتی طور پرسیلاب وغیرہ سے کھل جاتی ہیں تو ان کا دیدار ہو جاتا ہے، مگر یہ الله کی حکمت سے ہوتا ہے کسی انسانی کوشش یا عمل سے نہیں کیونکہ ہم کو حکم ہے میتوں کو دفن کریں،لہٰذا فوری طور پر قبروں کو بند کر دیا جاتا ہے- 

Tafsir - Jalalayn: 

And when We decreed for him, for Solomon, death, in other words, [when] he died — he remained supported against his staff an entire year, while the jinn continued to toil in hard labour as was customary, unaware of his death, until [finally] when a termite ate through his staff, he fell to the ground [and was seen to be] dead — nothing indicated to them that he had died except a termite [the piece of wood] was eaten away by a termite that gnawed away at his staff . And when he fell down, dead, the jinn realised, it became apparent to them, that had they known the Unseen — comprising what was hidden from them in the way of Solomon being dead — they would not have continued in the humiliating chastisement, [in] that hard labour of theirs, [in which they continued] as they supposed him to be alive, which is in contrast to what they would have supposed had they known the Unseen and the fact that he had been there an entire year, judging by how much of the staff the termite had eaten through after his death; in other words, [they would not have continued in the humiliating chastisement] for a single day or even a single night [longer].

[English Tafsir - Jalalayn- By Jalal ad-Din al-Mahalli and Jalal ad-Din as-Suyuti]

"عالم " فرماتے ہیں :

" لیکن قرآن کریم کی کسی بھی آیت میں یا حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا کہ اس لاش کے زمین پر رہنے پر تنقید کی گئی یا منع کیا گیا ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی تروتازہ لاش کا زمین پر کسی خاص مقصد کے لیے رکھنا جائز ہے۔"

ایک پیغمبر، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جِنّات پر ظاہر نہ ہو "تا کہ انسانوں کو معلوم ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے"- الله نے پیغبر کی  دعا کو قبول فرمایا اور قرآن میں بیان فرما دیا- اللہ کے کام میں کس کو جرات ہے تنقید کرے؟  الله نے ہمیشہ کے لیے ثابت کر دیا کہ جنات کو علم غیب نہیں-

جہاں تک الله کا معاملہ ہے وہ کسی خاص مقصد کے لیےاپنے احکام (سنت الله) میں استثنیٰ exception فرما  دیتا ہے ہم الله پر تنقید یا سوال نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی اللہ کے غیر معمولی اقدام exceptions کی اپنے طور پرغلط تاویل کر سکتے ہیں (معازالله)- 


الله آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ کرنے کے لیے- سمندر میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے راستہ بنا دیتا ہے اور فرعون کو غرق کر دیتا ہے، اس کی لاش کو مقام عبرت بنا دیتا ہے:


 فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَۃً ٬ وَاِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰٰيتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.(قرآن، 10:92)

 ترجمہ : ’’پس آج ہم تيرے جسم کو بچائيں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے ليے نشانی بنے اور بے شک ٬ بہت سے لوگ ہماری نشانيوں سے غافل ہی رہتے ہيں۔‘‘....

اس طرح کے غیر معمولی واقعات الله کے اپنے احکام (سنت الله) میں استثنیٰ exceptions  ہیں جو صرف الله کا اختیار ہے، غیر الله ، مخلوق کا نہیں- امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کرنا ہے جس کا الله نے حکم دیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کر کہ عملی نمونہ پیش کیا. میت کی رسومات اور تدفین اسی میں شامل ہے- یہ وہ نمونہ کامل ہے جسے "لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ" قراردیا گیا جن کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے:

 كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (بقرہ ١٥١)

ترجمہ : چنانچہ ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔… اسی بنا پر حضورؐ کو راہ بر و معلم انسانیت کہا گیا۔ چناںچہ آپﷺ کا فرمان ہے، مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

یہ کہنا کھلا جھوٹ اور بہتان ہے کہ: .".حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا کہ اس لاش کے زمین پر رہنے پر تنقید کی گئی یا منع کیا گیا"...  میت کو قبر میں دفن کرنے کا حکم بھی الله کا ہے( قرآن،5:31،80:21)

 اس فرض کو تسلسل سے رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا اور ١٤٠٠ سال سے امت مسلمہ اس پر عمل کر رہی ہے- ١٤٠٠ سال میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی مومن کی میت کو جان بوجھ کر نہ دفنایا گیا ہو تنقید تو تب ہو جب کوئی حکم عدولی کرے، مسلمان الله اور رسول کے حکم اور تعلیمات کی خلاف درزی کا سوچ بھی نہیں سکتے-  میت کے دس حقوق قرآن  سے ثابت ہیں جن پر مسلمان عمل کرتے ہیں-

حضرت ابوہریرہسے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازے کو تیز لے جایا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔“(بخاری)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو آدمی ایمان کی صفت اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اُس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اُس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا‘ جس میں سے ہر قیراط گویااُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ اور جو آدمی صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہو گا۔ “(بخاری)

اسلام میں میت کےدس حقوق جن میں قبر میں دفن کرنا ، قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں: میت کو غسل دینا، تکفین کرنا، نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا،ایک معزز مہمان کو رخصت کرنے کی طرح لاش کے ساتھ احتراماً جنازہ گاہ اور قبرستان جانا، قبر کی تیاری میں کام کرنا، لاش کی نہایت ادب واعزاز کے ساتھ تدفین کرنا،اس کے لئے دعائیں کرنا،ایصالِ ثواب کرنا،وقتاً فوقتاً زیارت قبور کے لئے جانا، میت کی قبر اور اس کے اعضاء کا احترام کرنا۔ لاش اور میت کے یہ دس حقوق قرآن وسنت سے بڑی تفصیل کے ساتھ ثابت ہیں، تفصیل کے لئے احکام ِمیت، کتاب الجنائز ، حقوقِ میت اور فتاویٰ القبور کو دیکھا جاسکتا ہے-

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (22:57)

 ترجمہ : اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہوگا اُن کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا-

مندرجہ بالا حقائق سے ثابت  ہوا کہ لہٰذا حضرت سلیمان علیہ السلام کی نعش زمین پر کچھ عرصہ کے لیے الله تعالی نے پیغمبر کی دعا قبول کرکہ اور جنات کو علم غائب سے محرومی کو ثابت کرنے کے لیے رکھی جو اللہ کے احکام اور سنت الله میں استثنائی عمل تھا جو مسلمانوں کے لیے میت کو کفن دفن کے بغیرتبلیغ کے لیے رکھنے کی حجت، جائز نہں - امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کرنا ہے جس کا الله نے حکم دیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کر کہ عملی نمونہ پیش کیا. میت کی رسومات اور تدفین اسی میں شامل ہے- 

یہ وہ نمونہ کامل ہے جسے

 "لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ" قراردیا گیا جن کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے:

 كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (بقرہ ١٥١)

ترجمہ : چنانچہ ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔… اسی بنا پر حضورؐ کو راہ بر و معلم انسانیت کہا گیا۔ چناںچہ آپﷺ کا فرمان ہے، مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ہم نے ان کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے- پہلے کی امتوں کے احکام شریعت محمدی سے مشروط ،ورنہ منسوخ ہیں- میت کو دفن کا حکم عام ہے-

"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ" 

جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسرالقرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷)


………………………………………………….
انڈکس 

  1. فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
  2. معجزات اور قرآن
  3. قرآن اور عقل و استدلال
  4. تفسیر قرآن کے اصول 
  5. میت کے دس حقوق وفرائض
  6. انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
  7. بدعت ضلاله
  8. نفس کی غلامی 

استدلال باطلہ کا استرداد:
    1. حضرت عزیر علیہ السلام کی سو سالہ موت اور زندگی 
    2. حضرت سلیمان علیہ السلام کی  میت 
    3. قبر کھدائی
    4. انسانی ذات میں معجزات 
    5. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر 
    6. حضرت حمزہ (رضی  الله) کی میت
    7. جوتے اتار کر نماز اور داڑھی
    8. لاشوں پر تبلیغ کا اجتہاد؟

    Comments

    Popular posts from this blog

    تفسیر قرآن کے اصول

    میت کے دس حقوق اور قبروں کا احترام

    قرآن اور عقل و استدلال