زمین کھود کر نشانی نکالنے کی دعوت
۳) زمین کھود کر نشانی نکالنے کی دعوت
ترجمہ۔ سورہ انعام6،آیت35: اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔ اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا۔
استدلال #3:
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین سے کوئی ایسی اللہ کی قدرت کی نشانی نکالنا تاکہ غیر مسلموں کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں دکھاسکیں جائز ہے۔ میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی وہ نشانی اشارتاً قبر کے اندر شہدائے اسلام کی تروتازہ لاشیں ہیں۔ جب تک یہ محفوظ لاشیں قبروں کے اندر رہیں گی تو ہم غیر مسلموں کو کیسے دکھائیں گے؟ لہذا ضروری ہے کہ چند ایسی لاشیں دفن ہی نہ کی جائیں اور زمین پر رہنے دی جائیں تاکہ غیر مسلم انہیں دیکھ کر مطمئن ہوں اور دین اسلام قبول کریں۔
تجزیہ ستدلال# 3:
آیت (6:35) میں 6 پوائنٹس ہیں ، بغیر کسی تبدیلی یا کمنٹس، اگر ، مگر کے بغیر ان 6 پوائنٹس پر غور کریں مطلب واضح ہو جاتا ہے:
(١) اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو
(٢) اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا
(٣)آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو)
(٤)پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔
(٥) اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا
(٦) پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا۔
اگر اب بھی کوئی شک رہ گیا ہے تو اس آیت (6:35) کو سیاق و ثبات میں دیکھیں توحقیقت مزید کھل جاتی ہے، مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت فرمائشی معجزات دکھلانے کی مخالفت میں ہے:
ترجمہ :" اے محمدؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں (33) تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں (34) تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو (35)دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سننے والے ہیں، رہے مُردے، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں گے (36) یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں-(37) زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں (38) مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں، تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے" ( الانعام 6:39)
کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ نبی ہیں تو ان کے ساتھ ہمیشہ ایسا نشان رہنا چاہئے جسے ہر کوئی دیکھ کر یقین کرنے اور ایمان لانے پر مجبور ہو جایا کرے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام دنیا کی ہدایت پر حریص تھے شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے چاہا ہو گا کہ ان کا یہ مطالبہ پورا کر دیا جائے، اس لئے حق تعالیٰ نے یہ تربیت فرمائی کہ تکوینیات میں مشیت الہٰی کے تابع رہو۔ تکوینی مصالح اس کو مقتضی نہیں کہ ساری دنیا کو ایمان لانے پر مجبور کر دیا جائے ورنہ خدا تو اس پر بھی قادر تھا کہ بدون توسط پیغمبروں اور نشانوں کےشروع ہی سے سب کو سیدھی راہ پر جمع کر دیتا۔ جب الله کی حکمت ایسے مجبور کن معجزات اور فرمائشی نشانات دکھلانے کو متقضی نہیں تو مشیت الہٰی کے خلاف کسی کو یہ طاقت کہاں ہے کہ وہ زمین یا آسمان میں سے سرنگ یا سیڑھی لگا کر ایسا فرمائشی اور مجبور کن معجزہ نکال کر دکھلا دے۔ خدا کے قوانین حکمت و تدبیر کے خلاف کسی چیز کے وقوع کی امید رکھنا نادانوں کا کام ہے-
فرمائشی معجزات نہ دکھلانے کی حکمت:
الله فرمائشی معجزات دکھلانے سے عاجز نہیں۔ لیکن جن قوانین حکمت و رحمت پر نظام تکوین کی بنیاد ہے، تم میں سے اکثر ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان قوانین کا اقتضا یہ ہی ہے کہ تمام فرمائشی معجزات نہ دکھلائے جائیں- الله کی حکمتیں ہیں جو فرمائشی نشانات نہ دکھلائے جانے میں مرعی ہیں۔ انسان جنس حیوان میں "بااختیار اور ترقی کن” حیوان ہے اسی کسب و اختیار اور ترقی کن عقل و تمیز کی موجودگی نے اس کے نظام تکوینی اور قانون حیات کو دوسرے تمام حیوانات سے ایسا اعلیٰ اور ممتاز بنا دیا ہے۔ وہ برخلاف باقی حیوانات کے دیکھنے سننے اور پوچھنےسے نئی نئی معلومات حاصل کرتا اور قوت فکریہ سے ان کو ترتیب دےکر حیات جدید کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے وہ نیک و بد میں تمیز کرنے، نافع و ضار کے پہنچانے، آغاز و انجام سمجھنے پر قادر اور کسی عمل کے کرنے یا چھوڑنے میں فی الجملہ آزاد ہے۔ اسی لئے اس کو خدا کی جانب سے ایسے نشانات دکھلائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے اور فکر و کسب کی فطری آزادی کو سلب کرنے والے نہ ہوں۔ اور اگر وہ خدا کے دیے ہوئے قوائے عقلیہ سے ٹھیک طور پر ان میں غور کرے تو اسے حق و باطل اور نیک و بد کی تمیز کرنے میں کچھ دقت نہ ہو۔ پس ایسے فرمائشی نشانات و معجزات کی درخواست کرنا جو بہمہ وجوہ ایمان لانے پر مجبور کر دیں، انسان کی فطری آزادی اور اس کے نظام ترکیبی کو تباہ کرنے بلکہ انسان کو عام حیوانات کی صف میں اتار لانے کا مرادف ہے۔ اور اگر فرمائشی نشان بہمہ وجوہ مجبور کن نہ ہوں تو ان کا دکھلانا بیکار ہے۔ کیونکہ ان میں بھی وہی غیرناشی عن دلیل شکوک و شبہات پیدا کر لئے جائیں گے جو ہزاروں غیرفرمائشی نشانات میں کئے جا چکے-( تفسیر مولانا محمود )
شیطان اتنا بھٹکا دیتا ہے کہ صاف واضح ، کھلی آیات قرآن کا مطلب الٹا سمجھ اتا ہے جو سمجھنا ہی نہیں چاہتے:
" اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (99)
کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے (100)
اِن سے کہو “زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو" اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں (10:101سورة يونس)
تفسیر تفہیم القرآن :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے سمجھاتے مدّتیں گزر گئی ہیں اور کسی طرح یہ راستی پر نہیں آتی تو بسا اوقات آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش کوئی نشانی خدا کی طرف سے ایسی ظاہر ہو جس سے اِن لوگوں کا کفر ٹُوٹے اور یہ میری صداقت تسلیم کر لیں۔ آپ کی اِسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ۔ معجزوں سے کام لینا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے؟
مگر ہم جانتے ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس مدنیّتِ صالحہ کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمُود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا ، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمُود کو توڑنے کے لیے کسی محسُوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے ، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھُس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہوگا ۔ مگر ہم سے اُمید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے کیونکہ ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رَو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوتِ حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا منشاء تویہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکرِ صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اُس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوّق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجمُوعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال ، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اُصُولِ زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامتِ دین ِ حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر
کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرتِ قاہرہ کے زور سے افکارِ فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکرِ صالح پھیلا دے اور تمدّنِ فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیّتِ صالحہ تعمیر کر دے ، تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اُس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمّہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اسے تصرّف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مُہلت عطا کی ہے، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کر
دیا ہے۔ (تفسیر تفہیم القرآن)
تفسیر ضیاء القرآن:
اس آیت میں دو اہم باتوں کا ذکر ہے۔ ایک تو یہ کہ میرا محبوب ان گم کر دہ راہوں کے ہدایت پانے پر اتنا حریص ہے کہ وہ ہر کوشش کے لئے تیار ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کا بس چلے تو جس معجزہ کا وہ مطالبہ کریں وہ پیش کر دے۔ خواہ اس کے لئے زمین میں سرنگ لگانی پڑے یا آسمان پر زینہ لگا کر چڑھنا پڑے۔ دوسری بات یہ بتائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا یہ تقاضا نہیں کہ کسی کو اتنا مجبور ومقہور کر دیا جائے کہ اسلام کو تسلیم کئے بغیر اس کے لئے کوئی چارہ کا ر نہ رہے۔ کیونکہ دین صرف چند رسوم کی ادائیگی اور چند کلمات کے تلفظ کا نام بلکہ یہ وہ ہمہ گیر انقلاب ہے جو روح، قلب اور شعورو احساس کی پرانی دنیا کو زیرو زبر کر کے نئی دنیا تعمیر کرتا ہے اور یہ انقلاب فقط اسی وقت رو پذیر ہو سکتا ہے جب کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے خوب سوچ سمجھ کر اس نظریہ حیات کو قبول کر ے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو کوئی خاص دین اختیار کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہیں کہ ہماری قدرت تو اتنی وسیع ہے کہ اگر ہم چاہیں تو سب بوذر (رض) وبلال (رض) بن جائیں لیکن ایسا کیا نہیں جاتا۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ یہاں خطاب امت کے ہر فرد، ہر سننے والے کو ہے-
اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو کوئی خاص دین اختیار کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہیں کہ ہماری قدرت تو اتنی وسیع ہے کہ اگر ہم چاہیں تو سب بوذر (رض) وبلال (رض) بن جائیں لیکن ایسا کیا نہیں جاتا۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ یہاں خطاب امت کے ہر فرد، ہر سننے والے کو ہے-
مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔ پس ثابت ہوا کہ استدلال باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ یہ قرآن کے پیغام کے الٹ ہے لہٰذا رد کیا جاتا ہے-
"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسرالقرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷)
………………………………………………….
انڈکس - فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
- معجزات اور قرآن
- قرآن اور عقل و استدلال
- تفسیر قرآن کے اصول
- میت کے دس حقوق وفرائض
- انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
- بدعت ضلاله
استدلال باطلہ کا استرداد:
Comments
Post a Comment