حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش مبارکہ


۱) حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش مبارکہ


ترجمہ : سورہ البقرہ 2،آیت259: یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اللہ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اللہ نے اسے سو برس تک مردہ رکھا پھر اسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ توسو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جْنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔
استدلال #1:
اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش کو سوسال تک زمین پر رکھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت کے مسلمانوں نے بھی ان کی نعش کو دیکھا ہو اور غیر مسلموں نے بھی دیکھا ہو۔ بہرحال اس سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دکھانے کے لیے تروتازہ لاش کو زمین پر رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سو سال تک حضرت عزیر علیہ السلام کی نعش زمین پر رکھی رہی اور کسی مسلم و غیر مسلم نے اسےنہیں دیکھا۔ اور اگر کسی نے دیکھا تو پھر ہمارا مدعا ثابت ہے کہ غیر مسلموں کو تروتازہ لاش دکھانا جائز ہے۔  

تجزیہ استدلال #1 :

  1. ١.اگر استدلال میں سرخ رنگ کے الفاظ پر غور کریں تو اس استدلال کی حقیقت کا پول کھل جاتا ہے- یہ استدلال دس (١٠) مفروضات پر قائم ہے-
  2. ہوسکتا ہے کہ….. دیکھا ہو …  دیکھا ہو۔….. ثابت ہوتا ہے…... تروتازہ لاش کو زمین پر رکھنا جائز ہے۔ …..  یہ ممکن ہی نہیں ہے …... نعش زمین پر رکھی رہی …...نہیں دیکھا۔ ..اگر …...ثابت ہے کہاگر کوئی ان کے الٹ مفروضے قائم کرے تو کس دلیل پر اس کو رد کریں گے؟ ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق مفروضے گھڑھ سکتا ہے- من گھڑت مفروضوں پر دین میں نئی نئی بدعات ضلاله قائم کرنا قبیح فعل ہے- میت کس حالت میں ١٠٠ سال پڑی رہی اس کا کوئی ذکر نہیں- جب اپ کو زندہ کیا گیا تو گدھے کی ہڈیاں تھیں جن پر گوشت چڑھا کر بتدریج دکھایا گیا ، کھانے پینے کی اشیاء موجود تھیں- ممکن ہے کہ میت بھی ہڈیوں کی صورت میں ہو یا لاش کی صورت میں (واللہ اعلم). جس بات کا جتنا تذکرہ ہے اس کے آگے مفروضات قائم کرنا اور ان مفروضات کی بنیاد پر  قرآن و سنت کے احکام (میت کی تدفین ) کے خلاف بدعات ضلاله قائم کرنا بہت بڑا ظلم اور فتنہ ہے ..مزید  فتوی تو کوئی مفتی ہی لگا سکتا ہے-
  3. اس آیت (٢:٢٥٩) میں موت کے بعد زندگی عطا کرنے کی الله کی طاقت کا ثبوت دیا گیا صرف ایک بندہ (حضرت عزیر  علیہ  السلام ) کو، " اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اللہ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، "...... . "جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے "۔ اس آیت میں کہیں بھی کسی دوسرے انسان کا ذکر نہیں، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ میت کی نمائش ہوئی تاکہ لوگ ایمان لے آیئں-  دوبارہ آیت کے ترجمہ  کو پڑھیں، واضح ہو جاتا ہے- بلا جواز خیالی مفروضات کومسترد کریں کہ لوگوں نے دیکھا ہو گا-  جب آیات خود بتا رہی ہے کہ یہ واقعہ  صرف ایک شخص  (حضرت عزیر  علیہ  السلام ) کے متعلق ہے-
  4. تفسیر کنزالایمان میں واضح طور پر لکھا ہے کہ:"... اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عُزیر علیہ السلام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا جب آپ کی وفات کو سو برس گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا …… آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے" [اقتباس- تفسیر کنزالایمان -مترجم مولانا احمد رضاخان بریلوی صاحب مفسر علامہ نعیم الدین مراد آبادی صاحب]. اللہ نے ان کی میت کی نمائش نہ فرمائی، یہ مزید واضح کرتا ہے کہ میت کی نمائش ممنوع ہے- اگلی آیت سے بھی واضح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ  السلام کے دل می بھی مردوں کو زندہ کرنے پر سوال اٹھا اور جواب ملا صرف ان کو-
  5. ترجمہ(قرآن ٢:٢٦٠): "اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ: "میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے" فرمایا: "کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟" اُس نے عرض کیا "ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے" فرمایا: "اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے" (قرآن ٢:٢٦٠)
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (٢:١٥٩قرآن )
"بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت "(٢:١٥٩قرآن )
  1. بائبل کے مطابق مصر سےخروج  پر: "موسیٰ، یوسف کی ہڈیوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ مرنے سے پہلے یوسف نے اسرائیل کی اولاد سے یہ کر نے کا وعدہ کر لیا تھا۔ یوسف نے کہا، “جب خدا تم لوگو ں کو بچا ئے میری ہڈیوں کو مصر کے باہر اپنے ساتھ لے جانا یاد رکھنا۔”(خروج:13:19 )
  2. اصحاب کہف کی نیند کا واقعہ بھی قرآن میں ہے، ان کو نیند کی حالت میں لوگوں سے پوشیدہ غار میں رکھا گیا- جب جاگے تو لوگوں کو علم ہوا-
  3. ایک  استثنیٰ فرعون کے لیے، جو کافر اور الله کا نافرمان تھا ، اس کی لاش کو بطور عبرت محفوظ کرنے کا ذکر ہے:
    1. فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰيَۃً ٬ وَاِنَّ کَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰٰيتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.(قرآن، 10:92)
    2. ترجمہ :’’پس آج ہم تيرے جسم کو بچائيں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے ليے نشانی بنے اور بے شک ٬ بہت سے لوگ ہماری نشانيوں سے غافل ہی رہتے ہيں۔‘‘(سوره یونس 10:92)
    3. اس آيات ميں الله تعالیٰ نے ايک پيشين گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکهيں گے تاکہ بعد ميں آنے والے لوگوں کے ليے وه باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے کی لاش کو ديکھ  کر آنے والی نسليں سبق حاصل کريں۔ چنانچہ الله کا فرمان سچ ثابت ہوا اوراس کا ممی شده جسم 1898 ء ميں دريائے نيل کے قريب تبسيہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے دريافت ہوا، جہاں سے اس کو قاہره منتقل کر ديا گيا۔ اس پرتحقیق سے فرانس کے ڈاکڻر مورس بکائی اسلام کی حقانيت کے قائل ہو گئے۔ اور مشہور کتاب “قرآن ٬ سائينس اور بائيبل” لکهی۔ فرعون(کافر) کی لاش کو ہم غير مسلمانوں کے سامنے رکھ کر کہ سکتے ہيں کہ قرآن سچ ہے، کيونکہ قرآن دليل ہے۔
  4. مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔
    ………………………………………………….
    انڈکس 

    1. فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
    2. معجزات اور قرآن
    3. قرآن اور عقل و استدلال
    4. تفسیر قرآن کے اصول 
    5. میت کے دس حقوق وفرائض
    6. انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
    7. بدعت ضلاله
    8. نفس کی غلامی 

    استدلال باطلہ کا استرداد:

      1. حضرت عزیر علیہ السلام کی سو سالہ موت اور زندگی 
      2. حضرت سلیمان علیہ السلام کی  میت 
      3. قبر کھدائی
      4. انسانی ذات میں معجزات 
      5. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر 
      6. حضرت حمزہ (رضی  الله) کی میت
      7. جوتے اتار کر نماز اور داڑھی
      8. لاشوں پر تبلیغ کا اجتہاد؟

    Comments

    Popular posts from this blog

    تفسیر قرآن کے اصول

    میت کے دس حقوق اور قبروں کا احترام

    قرآن اور عقل و استدلال