رسول الله کی تدفین میں دیرسے استدلال



۵) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک انتقال کے بعد دودن زمین پر

کتاب الرحیق المختوم، ترجمہ و تصنیف مولانا صفی الرحمان مبارکپوری صفحہ نمبر632-633: اس کتاب میں مذکورہ روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے پہلے ہی آپ ﷺکی جانشینی کے معاملے میں اختلاف پڑگیا۔سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان بحث و مناقشہ ہوا،مجادلہ و گفتگو ہوئی،تردید و تنقید ہوئی اور بالآخر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق ہوگیا۔اس کام میں دوشنبہ کا باقیماندہ دن گزرگیا اور رات آگئی۔ یہاں جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق دوشنبہ دن کے وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور بدھ کی شب آدھی رات کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی۔

استدلال #5:
1. حضرت محمدﷺ کا جسم مبارک کم از کم دو دن تک زمین پر رکھا گیا۔ 

2.خلافت کے قیام کے فیصلے کے لیے- کیونکہ خلافت ایک اہم چیز ہے۔اس کے بغیر نظام سلطنت و مملکت نہیں چل سکتا۔

3.لہذا کم از کم دو دن تک تواس مقصد کے لیے شہدائے اسلام کی لاشوں کو زمین پر رکھنے کا جواز مل گیا۔ 

4.آج پوری دنیا جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک محلہ نما بن چکی ہے ۔غیر مسلموں کو دو دن کے اندر شہدائے اسلام کی تازہ لاشیں دکھاکر مطمئن کرنا آسان ہوگا -

ممکن ہے کہ کفر ختم ہوجائے یا پھر کفر مغلوب تو بہرحال ہو جائے گا۔

5.اس کی وجہ سے جنگیں رک جائیںگی، کروڑوں معصوم انسان قتل ہونے سے بچ جائیں گے اور جو دولت مذاہب کے اختلافات کے سبب جنگوں پر خرچ ہورہی ہے وہ غربت و جہالت کے خاتمے پر خرچ ہونے لگے گی ۔ نیز پانچ ارب کافر وں کو مسلمان بناکر جہنم سے بچالینا یہ قیام خلافت کے مسئلہ سے کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

6.لہذا اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہدائے اسلام کی چند لاشوں کو زمین پر رکھنا جائز ہوگا۔

7.اس سلسلے میں مردے کودفن کرنے سے متعلق یا جلد دفن کرنے سے متعلق تمام احادیث پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے عمل نہیں کیا گیا ۔ لہذا ہم بھی اس مقصد کے لیے ان احادیث پر عمل نہیں کریں گے۔


تجزیہ # 5:
 استدلال کے سات پوانٹ آسانی کے لیے نمبر کر دیے گیے ہیں اور سرخ رنگ سے نمایاں بھی- ذرا غور کریں تو ان استدلال کا کھوکھلا پن واضح ہو جاتا ہے-

 کیا ایک مخصوص بلکل نئی استثنائی کیفیت ، جب صحابہ کرام کو شدید حالت غم میں خلیفہ کا انتخاب اور رسول الله کی تدفین کی ترتیب کرنا تھی ،اس ایک مرتبہ کے عارضی عمل واحد،  اجماع کو کسی اور حالت میں استدلال کے لیے استمعال کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ اس کے بعد اس ایک مرتبہ one time کے عارضی اجماع پر صحابہ  نے کبھی عمل نہ کیا بلکہ قرآن و سنت کے مروجہ اصول تدفین کو رائج رکھا جو آج تک رائج ہے- یہ ایک exception تھی نہ کہ rule ، کیونکہ عام حالت کا rule موجود تھا- 

پير کے دن ظہر سے قبل حضور کا انتقال ہوگيا۔ مسلمان حضرت محمدﷺکی وفات پر سخت دکھ ، غم کی حالت میں پریشان تھے، اکثر کو آپ کی وفات پر یقین نہیں آ رہا تھا جن میں حضرت عمر فاروق رضی الله بھی شامل تھے- 
[إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠، سورۃ الزمر) ترجمہ: یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں]
 مگر اس کے ساتھ دوسری تلخ حقيقت يہ تھی کہ قبائلی عصبيت سے بھرپور عرب کی نئی رياست ميں حکمرانی کا منصب خالی ہوچکا تھا اور کسی جانشين کا ابھی تک تعين نہيں ہوا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جو اس پس منظر ميں متوقع تھا۔ انصار کے بعض لوگ سقيفہ بنی ساعدہ ميں اکٹھے ہوکر حضور کی جانشينی کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے۔حضرت ابو بکر جو بلا شک و شبہ اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے ليڈر تھے، ان سے اس موقع پر اگر معمولی سی بھی کوتاہی ہوجاتی تو اسلام کی تاريخ بننے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ان حالات ميں حضرت ابو بکر حضور کے انتقال کی خبر سن کر سيدھے مسجد نبوی تشريف لائے اور ان شاندا ر الفاظ سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند کيا کہ:
 '' جو محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ ان کا انتقال ہوگياہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ جان لے کہ اللہ ہميشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہيں مرے گا''،(بخاری 640/2641)۔ 

 حضرت ابو بکر صدیق رضی الله نے جب قرآن کی یہ آیت تلاوت کی تو لوگوں کو ہوش آیا:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ (3:144)
ترجمہ: (حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، اگر وہ مر جائیں یا شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا-(3:144)

عرب ایک قبائلی معاشرہ تھا، تاریخ میں پہلی مرتبہ حضرت محمدﷺ نے ان کو ایک نظام کے تحت منظم کیا، ایک خلیفہ کا انتخاب بہت ضروری فریضہ تھا، اس میں دیر نفاق اور انتشار کا باعث ہو سکتی تھی-

اُسی پیر کی رات تک اس نازک ترین معاملہ کو حسن وخوبی کے ساتھ نمٹانے کے بعد اگلے دن منگل کو صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور آپ کی تجہیز وتکفین کی۔ سيدنا علی رضی اللہ عنہ اور ديگر قريبی اعزا نے آپ کے غسل اور تجہیز وتکفین کے فرائض انجام دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے حسب ِارشاد آپ کی قبر آپ کی وفات کی جگہ پر ہی بنائی جانی تھی۔ اس ليے تدفين اور نماز ِجنازہ کے ليے کہيں اور جانے کا سوال نہيں تھا۔ چنانچہ تمام اہل مدینہ نے گروہ در گروہ آکر سيدہ عائشہ کے اس حجرے ہی ميں نماز جنازہ ادا کی جہاں آپ کا انتقال ہوا تھا۔اوراس طرح نماز ادا کرنے ميں منگل کا پورا دن صرف ہوا۔ اورپھر رات کے درميانی اوقات ميں حضرت عائشہ کے حجرے ميں حضور کی تدفين عمل ميں-  ۔غور کیا جائے توآپ کی وفات کے بعد ان تمام معاملات کو نمٹانے میں کل دو دن صرف ہوئے-

 تدفین فرض کفایہ ہے اور مسلمانوں میں اتفاق اور اسلام کی ترویج کے لیے خلیفہ کا چناؤ بھی ایک اہم فریضہ تھا-  صحابہ فیصلے مشاورت سے کرتے تھے: 

 ''اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے''،(شوریٰ38:42)

یھاں ایک اختلافی مسئلہ درپیش تھا، کہ پہلے خلیفہ کا انتخاب یا تدفین ، صحابہ اکرام کا اجماع اسی پر ہوا کہ دو فرائض میں خلافت کا فیصلہ پہلے کیا جاتا اور پھر تدفین-



"اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے"(قرآن ٩:١٠٠)
یہ ایک خاص موقع تھا جس کو عام حالات سے استثنیٰ کہہ سکتے ہیں جس کی معقول وجوہات تھیں- اس کو کسی اور حالت سے زبردستی جوڑنا زیادتی ہے-

صحابہ کا اجماع صرف اس مخصوص واقعہ تک محدود تھا جس کو رسول الله ﷺ کی سند سے شرعی حثیت حاصل ہے:
” تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔  پس میری سنت اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اس سے تمسک کرو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔ خبردار ( دین میں )  نئی باتوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔”  (سنن ابی داود ، کتاب السنة ، باب لزوم السنة)
اس خاص واقعہ کے بعد کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ صحابہ نے میت کی تدفین میں دیر کی ہو- رسول اللہ کے حکم کے مطابق میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنا ١٤٠٠ سال سے تسلسل میں قائم ہے  کیونکہ:

حضرت ابوہریرہسے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازے کو تیز لے جایا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔“(بخاری)

اب ایک غیر شرعی عمل،یعنی شہید کی میت کی تدفین نہ کرنا دو دن یا زیادہ،  ایک ایسا مفروضہ قائم کرنا کہ کفار شہید کی میت کو تروتازہ دیکھ اسلام قبول کر لیں گے انتہائی لا یعنی بات ہے کیونکه :

شہید کی نیت کو صرف الله جانتا ہے، شہادت کا مرتبہ الله کے اختیار میں ہے جو عالم الغیب ہے- اگر میت دنیوی طور پر شہید ہے مگر الله کی نظر میں نہیں تو اس کی میت خراب ہو جائے گی جس کے منفی اثرات ہوں گے-


میت کا پردہ ، بھید کھل جائے گا جس کی ممانعت ہے-


کیا گارنٹی ہے کہ کفار اسلام قبول کر لیں گے؟ قرآن اور تاریخ میں ایسے واقعات ہیں کہ بہت محیر العقل معجزات دیکھ کر بھی کافروں نے انکار کر دیا-
الله نے فرمایا:
وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ.. ﴿قرآن :٥٩ :١٧ ﴾ 
"اور ہم نے معجزات بھیجنا اس لئے موقوف کردیا کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی.." (قرآن ١٧:٥٩)

مشیت الله :
" اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (99) کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے (100) اِن سے کہو “زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو" اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں (10:101سورة يونس)

معجزات بطور دلیل قرآن کے برخلاف ہے  (قرآن ١٧:٥٩) (10:101سورة يونس)

امن : یہ استدلال کہ تمام دنیا کے لوگ مسلمان ہو جائیں گے تو امن قائم ہو جائے گا، تاریخ ، انسانی نفسیات ، الله کے نظام اور مشیت سے لاعلمی پر مبنی ہے-  کیا مسلمان آپس میں جنگ و جدل نہیں کرتے؟ جنگ جمل . صفین ، کربلا سے لے کر اسپین ، ہندوستان ، ایران ، ترکی، یمن ، افغانستان ، شام مسلمانوں کی تاریخ  جنگوں سے بھر پور ہے- اسلام کی تبلیغ امن کا پیغام دیں مسلمانوں اور کفار کو جس کو الله ہدایت دے گا وہ راہ  راست پر آ جائیں گے- اگر نہیں تو ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا-
مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔


رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی تدفین اور خلیفہ کا چناؤ دو، فرائض کے ادا کرنے کی ترتیب صحابہ اکرام کے صرف عارضی ، خاص موقع پر ایک استثنائی اجماع تھا، جس کی بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی- صحابہ کا اجماع اور عمل ہمیشہ میت کو سرعت سے دفن کرنے کے رسول الله صلعم کے فرمان کے مطابق رہا- اس سے بے بنیاد ، قرآن و سنت کے برخلاف مفروضوں کی خواہش کے لیے  غلط تاویل نکالنا گمراہی ہے-

  پس ثابت  ہوا کہ استدلال باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ یہ قرآن کے پیغام کے الٹ ہے لہٰذا رد کیا جاتا ہے-

"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ" : جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (ترمذی)


http://rightfulreligion.blogspot.com/2018/01/end-of-miracles-islam-rational.html
https://caliphate.eu/2013/08/25/why-was-prophet-muhammads-%EF%B7%BA-burial-delayed/
http://www.al-mawrid.org/index.php/questions/view/nbi-ki-nmaze-jnazah-or-tadfeen-mnn-takheer-or-us-ki-wja
http://www.farooqia.com/ur/lib/1433/11/p33.php
………………………………………………….
انڈکس 

  1. فتنہ- لاشوں پر تبلیغ
  2. معجزات اور قرآن
  3. قرآن اور عقل و استدلال
  4. تفسیر قرآن کے اصول 
  5. میت کے دس حقوق وفرائض
  6. انبیاء و شہداء کی حیات بعد الموت
  7. بدعت ضلاله
  8. نفس کی غلامی 

استدلال باطلہ کا استرداد:
    1. حضرت عزیر علیہ السلام کی سو سالہ موت اور زندگی 
    2. حضرت سلیمان علیہ السلام کی  میت 
    3. قبر کھدائی
    4. انسانی ذات میں معجزات 
    5. رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر 
    6. حضرت حمزہ (رضی  الله) کی میت
    7. جوتے اتار کر نماز اور داڑھی
    8. لاشوں پر تبلیغ کا اجتہاد؟

    Comments

    Popular posts from this blog

    تفسیر قرآن کے اصول

    میت کے دس حقوق اور قبروں کا احترام

    قرآن اور عقل و استدلال