نفس کی غلامی





جو انسان دینِ فطرت کے اصولوں اور احکام کی اطاعت و پیروی سے انحراف کر کے نفس کا غلام بن جاتا ہے تو نفس کی خواہشات کی غلامی انھیں گمراہی وضلالت کے آہنی پنجے میں گرفتار کر دیتی ہے۔ اسلام کی احکامات سے دور ہو کر انسان گمراہ اور باغی بن جاتا ہے اور ان کی زندگی خواہشات اور نفس کی پیروی کے نقصانات و مصائب سے ان کے لئے وبالِ جان ہوجاتی ہے۔

اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے-
الله کے احکامات سے دور ہو کر انسان گمراہ اور باغی بن جاتا ہے اور ان کی زندگی خواہشات اور نفس کی پیروی کے نقصانات و مصائب سے ان کے لئے وبالِ جان ہوجاتی ہے۔ اسلام ایک ہمہ گیر طریقہء زندگی ہے جو انسانی خیالات اور اعمال کی مکمل رہنمائی کرتا ہے- اسلام کے معنی؛ تابع ہونا یعنی خود کو خدا کی رضا کا تابعدار اور فرمانبردار بنانا ہے۔ لفظ مسلم اسی مخرج سے نکلا ہے جس کے معنی وہ جو تابعدار ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر سچا مسلمان خود کو ہر وقت خدا کے سامنے حاضر سمجھتا ہے۔ لہٰذا اﷲ کے احکام کی پیروی کرنے والا مسلمان ہے اور نفس کی پیروی کرنے والا شیطان کے راستہ پر نکل پڑتا ہے۔

تبلیغ اور دعوه کا طریقه قرآن و سنت میں موجود ہے ، اور الله دین کے معاملہ میں جبر نہیں کرتا (قرآن ٢:٢٥٦ )، نہ ہی الله کی مشیت ہے کہ تمام انسانوں کو دین اسلام پر لے آیے اگر وہ چاہتا تو الله کے لیے کیا مشکل تھا؟
اب اگر کوئی زبردستی قرآن و سنت کے علاوہ تبلیغ کرنا چاہتا ہے ، شہداء کی لاشوں کی نمائش سے تو یہ وہ اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کر رہا ہے الله کی نہیں ... یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے -
الله نے فرمایا:
وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ.. ﴿قرآن :٥٩ :١٧ ﴾ 
"اور ہم نے معجزات بھیجنا اس لئے موقوف کردیا کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی.." (قرآن ١٧:٥٩)

مشیت الله :
" اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (99) کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے (100) اِن سے کہو “زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو" اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں (10:101سورة يونس)

معجزات بطور دلیل قرآن کے برخلاف ہے  (قرآن ١٧:٥٩) (10:101سورة يونس)

 یہ استدلال کہ تمام دنیا کے لوگ مسلمان ہو جائیں گے تو امن قائم ہو جائے گا، تاریخ ، انسانی نفسیات ، الله کے نظام اور مشیت سے لاعلمی پر مبنی ہے-  کیا مسلمان آپس میں جنگ و جدل نہیں کرتے؟ جنگ جمل . صفین ، کربلا سے لے کر اسپین ، ہندوستان ، ایران ، ترکی، یمن ، افغانستان ، شام مسلمانوں کی تاریخ  جنگوں سے بھر پور ہے- اسلام کی تبلیغ امن کا پیغام دیں مسلمانوں اور کفار کو جس کو الله ہدایت دے گا وہ راہ  راست پر آ جائیں گے- اگر نہیں تو ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا-

مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ، کسی مسلمان يا شہيد کی ميت کو قبر سے نکال کر، یا دفن کیے بغیر بطور ثبوت پيش کرنے کی کوئی شرعی دليل نہيں بلکہ ایسا فعل نہ صرف ميت کی بے حرمتی ہے بلکہ میت کے قرآن و سنت سے ثابت دس حقوق و فرائض کے برخلاف ہے جس کی کوئی مسلمان اور ذی عقل شخص اجازت نہيں دے سکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی تدفین اور خلیفہ کا چناؤ دو، فرائض کے ادا کرنے کی ترتیب صحابہ اکرام کے صرف عارضی ، خاص موقع پر ایک استثنائی اجماع تھا، جس کی بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی- صحابہ کا اجماع اور عمل ہمیشہ میت کو سرعت سے دفن کرنے کے رسول الله صلعم کے فرمان کے مطابق رہا- اس سے بے بنیاد ، قرآن و سنت کے برخلاف مفروضوں کی خواہش کے لیے  غلط تاویل نکالنا گمراہی ہے-

  پس ثابت  ہوا کہ استدلال باطل اور گمراہ کن ہے کیونکہ یہ قرآن کے پیغام کے الٹ ہے لہٰذا رد کیا جاتا ہے-

"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ" : جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (ترمذی)

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ١ؕ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًاۙ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ١ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًاؒ(قرآن44 ,25:43)
مفھوم :"کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سُنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ  اُن سے بھی گئے گُزرے۔" (قرآن44 ,25:43)

جن لوگوں نے عقل کا چراغ بجھا دیا ہے جو کسی قوی سے قوی دلیل کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ، جو حق کے نور کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ جو محض اپنی خواہش نفس کے عبادت گزار ہیں ان کا نفس ہی ان کا خدا ہے ۔ جدھر وہ چاہتا ہے ادھر انہیں ہانک کر لے جاتا ہے۔ وہ اسی کی پوجا کرنے میں مگن ہیں۔ اے حبیب مکرم! کیا ایسے لوگوں کی ہدایت کے لیے آپ فکر مند ہیں۔ یہ تو ڈنگروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں کیونکہ وہ اپنے مالک کو پہچانتے ہیں اور اس کا حکم بجالاتے ہیں۔ اور جو خدمت ان کی شایاں ہے اس کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرتے۔ اور یہ نہ اپنے خالق کو پہچانتے ہیں نہ اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہیں نہ اس کا حکم بجالاتے ہیں۔ اس لیے ایسے لوگوں کی اصلاح کی توقع نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ باطل پر جمے رہیں اور حق کو قبول نہ کریں تو آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں۔(تفسیر ضیاء القرآن)



تفہیم القرآن:  خواہش نفس کا خدا بنا لینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے ، اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بُت کو پوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنانا ۔ حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ماتحت ظل السمآء من الٰہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع، ’’اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بد ترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو‘‘۔ (طبرانی) ۔
قرآن بار بار واضح کرتا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا در اصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے ، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے ، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ، قرآن ان سب کی یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے۔

جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لیے صحیح راہ کون سی ہے اور غلط کونسی، وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جا سکتا ہے ، اور یہ اعتماد بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا۔ لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بے مہار ہے ۔ اسے تو اس کی خواہشات جدھر جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر  دوسرے کو اختیار کرے ۔ پھر بھلا کون اسے سمجھا کر راستی کا قائل کر سکتا ہے ۔ اور بالفرض اگر وہ بات مان بھی لے تو اسے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنا دینا تو کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ۔ (تفہیم القرآن)

حدیث مبارکہ ہے:
’’ لَا یُؤمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّیٰ یَکُونَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ ‘‘ (السّنۃ لابن أبی عاصم: ۱۴)
’’تم میں کوئی ایک مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات اس کے تابع ہوجائیں جو میں آیا ہوں (یعنی قرآن )‘‘


تبلیغ اسلام کا طریقه اور اصول  قرآن و سنت اور صحابہ اکرام ، تابعین ،اسلاف اور بزرگان دین کے عمل سے مکمل طور پر واضح ہے-
۔ہمارا نفس ہمیشہ آرام و آسائش کی چیزوں کو پسند کرتا ہے یہ آرام وآسائش کی چیزیں ہمیں محنت اور نیک عمل سے دور کرتی ہیں اور نیک عمل سے دوری انسان کو گمراہ کر دیتی ہے اور یہ گمراہی ہمیں جنّت سے دور اور جہنّم کے قریب کردیتی ہے۔

جب انسان نفس کی پیروی سے اسلام کے احکام کی اطاعت وپیروی سے منحرف ہو جاتا ہے تو گمراہ ہو کر وہ اپنی قوتِ عمل کو گناہوں اور گمراہیوں کی سیاہ کاریوں میں صرف کرتا ہے۔ نفس کی پیروی کرتے کرتے وہ اﷲ سے دوری اختیار کر جاتا ہے اُس پر نصیحت آموز بات اثر نہیں کرتی کیونکہ نفس کی پیروی کے ساتھ اُسے مفت میں غرور بھی مل جا تا ہے۔اس طرح وہ گناہوں کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔

آج مسلمان مختلف مصائب کے امراض میں مبتلاء ہیں جن کا علاج صرف او رصرف نیک اعمال ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کے ہم نے جس دینِ اسلام کو قبول کیا ہے اُس دین کے تمام ارکان پر عمل کریں اورزندگی کے ہر شعبہء میں سُدھار پیدا کریں۔
ہر ایک معاملہ میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کریں نہ کہ اپنی خواہشات کے نفس پر عمل کرنے کے لیے زبردستی قرآن و سنت سے تاویلات نکال کر گمراہی کے راستہ پر چل پڑیں-
خواہش نفس پر عمل سے ممانعت پر قرآن میں سخت تاکید کی گئی ہے:

خواہشات کا تابع اپنی خواہش کو الٰہ بناتا ہے​

اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ١ؕ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْهِ وَكِيْلًاۙ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ١ؕ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًاؒ
کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟  کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سُنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ  اُن سے بھی گئے گُزرے۔ [قرآن ، سورت الفرقان ، آیت نمبر 43​]

خواہشات کا تابع سب سے بڑا گمراہ ہے​
اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا۔  [قرآن ، سورت القصص ، آیت نمبر 50​]

خواہشات کا تابع صرف اپنے خیال کے پیچھے چلتا ہے​
مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں ۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو ۔ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔  [قرآن ، سورت الروم ، آیت نمبر 29​]
شریعت پر عمل کرو ، ​خواہشات کا تابع بےعلم ہے​

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰى شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ   [الجاثیۃ 18​]
اس کے بعد اب اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت ) پر قائم کیا ہے ۔ لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔  [قرآن ، الجاثیۃ ، 18​]
یعنی جو اللہ کے دین میں کسی قسم کا رد و بدل کرے گا تو اللہ کے مواخذہ سے وہ نہ بچ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنےوالا فتنہ میں مبتلا ہو جائے گا​
".... لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منّہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی ۔ اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امّت بھی بنا سکتا تھا ، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۔ لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو ۔  [قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 48​]

خواہشات کے تابع پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے
"پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟" [قرآن ، سورت الجاثیۃ ، آیت نمبر23]​
" ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں اور پھر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنہیں علم کی نعمت بخشی گئی ہے پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی انہوں نے کیا کہا تھا ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے ٹھپہ لگا دیا ہے اور یہ اپنی خواہشات کے پیرو بنے ہوئے ہیں "۔  [قرآن ، سورت محمدﷺ ، آیت نمبر 16​]

​خواہشات کےتابع کو اپنا برا عمل خوشنما لگتا ہے​
بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لیے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں ؟  [قرآن ، سورت محمدﷺ ، آیت نمبر 14​]​

خواہشات کا تابع اپنے وہم و گمان کا مرید ہے​
دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیئے ہیں ۔ ! اللہ نے ان کے لیئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشات نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آ چکی ہے ۔  [قرآن ، سورت النجم ، آیت نمبر23​]

اللہ کی ہدایت چھوڑ کر خواہشات کا تابع اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا​

یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہو نگے ، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ ورنہ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی ، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے۔  [قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر120​]
خواہشات کا تابع ظالم ہے​
تم ان اہل کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آؤ ، ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں، اور نہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کے لیے تیار نہیں، اور اگر تم نے اس علم کے بعد ، جو تمہارے پاس آچکا ہے ، ان کی خواہشات کی پیروی کی ، تو یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔  [قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر145​]
خواہشات کا تابع طا لبِ دنیا ہے اور اسکی مثال کتے کی مثال ہے​
اگر ہم چاہتے اسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتّے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں ۔  [قرآن ، سورت الاعراف ، آیت نمبر 176​]

انصاف کے علمبردار بنو، خواہشات کے تابع نہ بنو​
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔  [قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر135​]

خواہشات کے تابع خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں​
کہو ، اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کے تخیّلات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور " سَوَاء السّبیل" سے بھٹک گئے ۔ [قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 77​]

​خواہشات کے تابع ہدایت یافتہ نہیں ہوتے​
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ، ان سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سِوا جن دوسروں کو پکارتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔ کہو، میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہوگیا، راہِ راست پانے والوں میں سے نہ رہا ۔  [قرآن ، سورت الانعام ، آیت نمبر 56​]

خواہشات کے تابع بغیر علم کے باتیں کرتے ہیں​
… بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں، ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔  [قرآن ، سورت الانعام ، آیت نمبر 119​]

خواہشات کے تابع آیات کو جھٹلاتے، قیامت کا انکار اور شرک کرتے ہیں​
ان سے کہو کہ " لاؤ اپنے وہ گواہ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ ہی نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے" ۔ پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دینا، اور ہرگز ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے، اور جو آخرت کے منکر ہیں، اور جو دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر بناتے ہیں ۔  [قرآن ، سورت الانعام ، آیت نمبر 150​]

خواہشات کا تابع اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل اور اسکا کام افراط و تفریط پر مبنی ہوتا ہے​

اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو ۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔  [قرآن ، سورت الکہف ، آیت نمبر 28​]

​خواہشات کا تابع نماز کو ضائع کرتا ہے​
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں ۔  [قرآن ، سورت مریم ، آیت نمبر 59​]
خواہشات کا تابع قیامت کی مطلق پرواہ نہیں کرتا​
پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔  [قرآن ، سورت طٰہٰ ، آیت نمبر 16​]

خواہشات کا تابع اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے​
(ہم نے اس سے کہا) '' اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے ، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے '' [قرآن ، سورت ص ، آیت نمبر 26​]

مسلمان کو صرف قرآن و سنت پر عمل کرنا ہے اور اپنے آپ کو اپنی خواہشات اور بدعات ضلاله سے بچانا ہے-

Comments

Popular posts from this blog

تفسیر قرآن کے اصول

میت کے دس حقوق اور قبروں کا احترام

قرآن اور عقل و استدلال